کورونا وائرس کے بارے میں پھیلنے والی گمراہ کن خبریں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا وائرس کے بارے میں پھیلنے والی گمراہ کن خبریں
کورونا وائرس کے بارے میں پھیلنے والی گمراہ کن خبریں

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمسایہ ملک چین میں کورونا وائرس کا حملہ ماہرینِ صحت کے لیے دردِ سر بن چکا ہے۔ا ب تک کی اطلاعات کے مطابق  ملک بھر میں 213 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 10 ہزار سے زائد متاثر ہیں جس کے باعث ہلاکتوں میں مسلسل اضافے کا خدشہ رہا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ 

چین کے صوبے ہوبائی میں ووہان سے کورونا وائرس کا آغاز ہوا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ پھیلتا چلا گیا۔ چین میں وائرس کی روک تھام کے لیے 2 ہسپتال بھی بنائے جا رہے ہیں۔

سوال یہ  ہے کہ  کورونا وائرس کہاں سے آیا؟ یہ کوئی عام وائرس ہے یا اسے تخلیق کرکے نئے دور کے نئے اندازِ جنگ کے طور پر پھیلایا گیا؟

الزامات، ہرزہ سرائیاں اور انٹرنیٹ پر پھیلنے والی خبریں عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے کافی ہیں، تاہم آج ہم وائرس کے متعلق پھیلنے والی مختلف خبروں کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

کورونا  وائرس کی وقت سے قبل  پیشگوئیاں:

سمپسن سیریز کے کارٹونز میں کورونا وائرس کا تذکرہ 1993ء میں نظر آتا ہے جہاں ایک ویڈیو کے ذریعے ہمیں بتایا گیا ہے کہ وائرس ایک کارٹن کے ڈبے کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔

کارٹونز کے ذریعے ہونے والی پیش گوئیوں میں کورونا وائرس کا ذکر مشکوک ضرور ہے کیونکہ یہ سیریز نائن الیون سمیت دیگر متعدد واقعات کی بھی پیش گوئی کرچکی ہے جن میں سے متعدد پوری ہوئیں۔ 

مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس پر الزام ہے کہ انہوں نے وائرس کو تخلیق کیا ہوگا کیونکہ انہوں نے 2018ء میں پیش گوئی کی کہ کچھ عرصے بعد ایسا وائرس پھیلے گا جو دیکھتے ہی دیکھتے وبا کی صورت اختیار کر جائے گا۔

بل گیٹس نے آج سے 2 سال قبل کہہ دیا کہ یہ وائرس 6 ماہ میں 3 کروڑ سے زائد افراد کی جان لے سکتا ہے، تاہم اس سے ان پر یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ وائرس کی تخلیق انہوں نے کی۔

بل گیٹس نے تو دنیا کو پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا، تاہم ان کی بات کو کسی نے سنجیدگی سے نہ لیا اور نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ 

کیا کورونا  وائرس سانپ کے گوشت یا  چمگادڑ کے سوپ سے پھیلا؟

سب سے پہلے یہ افواہ پھیلی کہ کورونا وائرس سانپ کے گوشت سے پھیلا، کیونکہ وہان کی گوشت مارکیٹ سے چینی لوگ خریداری کرتے ہیں۔ سانپ کا گوشت کھانا ان کے لیے معمول کی بات ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں شک ظاہر کیا جارہا ہے کہ کورونا وائرس چمگادڑ کے سوپ سے پھیلا۔ دراصل ان سب باتوں کی کوئی حقیقت نہیں، جب تک مکمل طور پر تحقیقات نہ کر لی جائیں۔

کیا وائرس کوئی بائیو حملہ ہے؟

سوشل میڈیا پر اس بات کا پرچار بھی شدو مد سے جاری ہے کہ کورونا وائرس امریکا کی لیبارٹری میں تیار ہوا جبکہ اسرائیلی میڈیا میں یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وائرس چین کی ہی لیبارٹری میں تیار ہو رہا تھا اور وہیں سے پھیلا۔

ان دونوں باتوں کو امریکا اور چین کی تجارتی جنگ سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا نے چین پر براہِ راست حملہ کرنے کی بجائے وائرس بنا کر بھیج دیا جبکہ اس رائے کے مخالفین اس کے برعکس بات کہتے ہیں۔

مخالفین کہتے ہیں کہ اسرائیلی میڈیا کی بات غلط نہیں ہے۔ چین ایک وائرس تیار کر رہا تھا جسے بعد ازاں امریکا یا کسی دیگر مخالف ملک کے خلاف استعمال کیا جانا تھا، تاہم نامعلوم وجوہ کی بناء پر ایسا نہ ہوسکا۔

وائرس کی تیاری اور اسے مخالف ممالک پر استعمال کرنے کا خیال بنیادی طور پر لغو ہے کیونکہ جو ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں، انہیں بائیو حملے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تجارتی جنگ جیتنے کے اور بھی بے شمار طریقے ہیں۔ 

تحقیق ضروری ہے

ہمارا مذہب اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ جب بھی کوئی خبر ملے، اس کی تصدیق ضرور کر لی جائے۔ حدیث کے مطابق کسی بھی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ کسی سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بیان کردے۔

اس لیے ہمارا یہ مشورہ افواہوں پر یقین کرنے والے تمام افراد کے لیے یہ ہے کہ بلا تحقیق سوشل میڈیا پر خبریں پھیلانا بے حد آسان ہوچکا ہے۔ اس لیے ہر شخص اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔

بہتر یہی ہے کہ کورونا وائرس کی حقیقت جاننے کے لیے وبا پر قابو پانے والی ویکسین کی تیاری، متاثر ہونے والے افراد کے علاج اور وائرس کی تخلیق پر تحقیقات کا انتظار کیا جائے۔حقیقت پر مبنی خبریں وقت سے پہلے نہیں آیا کرتیں!

Related Posts