معاشرے کے ناقابلِ قبول رویے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا کے ہر ملک میں مختلف معاشرے اور معاشرتی اکائیاں موجود ہوتی ہیں جن کے الگ الگ رویے، نظریات اور ثقافت ہوتی ہے۔

معاشرہ مختلف انسانوں کے تال میل، بول چال، گفتگو، نشست و برخاست اور رویوں سے تشکیل پاتا ہے۔روایات اس معاشرے میں مسلسل برتی جانے والے رجحانات کا ہی نام ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدل سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ طویل عرصے سے جمود کا شکار ہے۔ سندھ میں کاروکاری ہو یا قرآن سے شادی یا پھر پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں وٹے سٹے کا رواج، یہ انتہائی ناقابلِ قبول رسوم ہیں جنہیں ہم اکیسویں صدی میں بھی ختم نہیں کرسکے۔

ملک کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے اب 76برس مکمل ہوچکے ہیں جس کے بعد بھی ایسی قبیح رسموں کی موجودگی پر من حیث القوم ہمیں شرمندہ ہونا چاہئے کیونکہ بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ہمیں ان رسوم کو سینچنے کیلئے آزاد وطن جیسی نعمت سے سرفراز کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا تھا۔

اگر قائدِ اعظم کو یہ علم ہوتا کہ پاکستانی قوم جہالت، تعصب، فرقہ پرستی اور قتل و غارت کا شکار ہوجائے گی تو شاید انہیں ایک آزاد وطن دینے کے متعلق کبھی نہ سوچتے اور نہ ہی آج ہم کسی آزاد فضا میں سانس لے رہے ہوتے۔

تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو شخص بھی ایسی رسوم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کچھ کہنے نہیں دیا جاتا جیسے کہ ان رسوم کو پروان چڑھانے والے ہی اس معاشرے کے کرتا دھرتا بن چکے ہوں۔

کچھ ایسے معاشرتی رویے بھی ہیں جنہیں صرف جاہل لوگ ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اپناتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے، مثال کے طور پر طلاق کو معیوب اور طلاق یافتہ خاتون کو بد کردار سمجھنا اور جہیز لینے میں خوشی محسوس کرنا۔

جہیز لینے کیلئے لڑکے والوں کی جانب سے باضابطہ مطالبات رکھے جاتے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، کیونکہ جہیز ایک والد کا اپنی بیٹی کیلئے تحفہ ہوتا ہے جو وہ اپنی استطاعات اور اوقات کو دیکھتے ہوئے دے سکتا ہے۔

ہم نے شادی کو جرم بنا دیا ہے۔ کیونکہ اگر لڑکی شادی کرنا چاہے تو لڑکے والے جہیز مانگتے ہیں، عمر پوچھی جاتی ہے، چہرے کی رنگت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں اور اگر لڑکا کرے تو اسے بھی مشکل ہوتی ہے۔

سب سے بڑی مشکل جو شادی کیلئے ایک لڑکے کو اٹھانی پڑتی ہے وہ شادی کی تقریب میں سیکڑوں افراد کیلئے کھانے اور سات رنگ کے کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ نئے نویلے اور شادی شدہ جوڑے کی زندگی آسان بنانے کیلئے معاشرے کو جو جتن کرنے چاہئیں، وہ نہیں کرتا۔

والدین اور سسرالیوں کو سمجھنا چاہئے کہ جب کوئی شادی شدہ جوڑا اپنی زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرتا ہے تو انہیں معاشی اور معاشرتی مشکلات پیش آسکتی ہیں، اگر لڑکی کی طرف سے خاطر خواہ جہیز نہ ملے تو نئی بہو کو باتیں سنائی جاتی ہیں۔

دنیا ہم سے بہت آگے جاچکی ہے۔ بھارت جیسا معاشی اعتبار سے ترقی پذیر ملک بھی چاند پر پہنچ چکا اور ہم معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں ہی کامیاب نہ ہوسکے۔ ضروری ہے کہ ملک کا معاشرہ اپنے رویوں پر غور کرے اور غیر ضروری اور ناقابلِ قبول باتوں کو اپنے ضابطۂ اخلاق سے حذف کردیا جائے، شاید اس سے معاشرے میں کچھ بہتری آسکے۔ 

Related Posts