ٹرانس جینڈر ایکٹ، مذہبی حلقوں کا اعتراض کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ٹرانس جینڈر ایکٹ، مذہبی حلقوں کا اعتراض کیا ہے؟
ٹرانس جینڈر ایکٹ، مذہبی حلقوں کا اعتراض کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک میں ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی ایشو اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر لوگوں کی توجہ کھینچ لیتا ہے۔ آج کل “ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ” ملک بھر میں موضوع بحث ہے، بالخصوص مذہبی حلقے اس قانون کو لیکر سخت غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ یا تو اس قانون کو واپس لیا جائے یا پھر اس میں مناسب ترمیم کی جائے۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ قانون ہے کیا اور اس میں ایسا کیا ہے، جس سے مذہبی حلقے اس قدر غصے میں ہیں۔

پس منظر:

پاکستان میں مخلتف سماجی طبقات کی طرح خواجہ سرا بھی ایک طبقہ ہے اور ایسا مظلوم طبقہ ہے جو دیگر طبقات کی بالادستی پر مشتمل اس معاشرے میں اپنے تمام حقوق سے یکسر محروم ہے۔ کچھ عرصے سے اس طبقے میں بھی اپنے حقوق اور مظلومیت کا شعور پیدا ہوگیا ہے اور اس نے دھیمے سروں میں اپنی مظلومیت اجاگر کرکے اپنے انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی ہمت اور جرات کرلی ہے۔

خواجہ سراؤں کے مظلوم ترین طبقے کو اب انہی کی کمیونٹی میں سے با شعور اور متحرک افراد کی نمائندگی مل گئی ہے، جنہوں نے ہر فورم پر اپنے طبقے کے حقوق کیلئے جدو جہد کی ہے۔ دو ہزار نو میں اس طبقے کی ایک نمائندہ رہنما الماس بوبی اور اسلم خاکی ایڈووکیٹ کی پٹیشن پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو پابند بنایا کہ وہ خواجہ سرا کمیونٹی کو معذور افراد کے زمرے میں رکھ کر ان کی امپاورمنٹ کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔ 

اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چودھری نے  حکم دیا کہ حکومت خواجہ سراؤں کے لیے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ بنائے تاکہ اُن کو تربیت دے کر اُنھیں روزگار فراہم کیا جا سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو تربیت دیکر اُنھیں نرسنگ یا دائی کے شعبوں میں لایا جا سکتا ہے۔

عدالت عظمی کے ان احکامات کے بعد خواجہ سراؤں کے مسائل قومی سطح پر زیر بحث آئے اور پارلیمنٹ میں بھی ان کے حقوق کیلئے بنیادی قانون سازی ہوئی۔ یہ معاملہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا 2018 تک پہنچا۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018:

دو ہزار اٹھارا میں سینیٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کی رکن ثمینہ عابد، ن لیگ کی سینیٹر کلثوم پروین، پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد اور ق لیگ کی سینیٹر روبینہ عرفان نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کا بل برائے قانون سازی پیش کیا۔ 

اس بل کا نام “ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ” رکھا گیا۔ بل پیش ہونے کے بعد جلد ہی اس وقت کی حکمران جماعت ن لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ق لیگ کے تعاون سے یہ بل بطور قانون منظور ہوگیا۔

بعد ازاں یہ اسمبلی میں پیش ہوا، وہاں بھی مذکورہ بالا سیاسی جماعتوں کے ووٹس سے یہ قانون منظور ہوا اور جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا احتجاج رائیگاں رہا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اس وقت کے صدر ممنون حسین کے پاس یہ قانون حتمی توثیق کیلئے گیا اور صدر ممنون کے دستخط کے بعد یہ قانون نافذ العمل ہوگیا۔

قانون نافذ ہونے کے بعد جماعت اسلامی نے اس قانون کو غیر اسلامی اور آئین و دستور پاکستان سے متصادم قرار دے کر وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا۔ 

ٹرانس جینڈر ایکٹ میں کیا ہے؟ 

ٹرانس جینڈر ایکٹ میں خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کی ضمانت، اقرار اور تحفظ شامل ہے اور یہ قانون حکومتوں کو پابند بناتا ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ضروری اقدامات کریں۔  اس قانون کی منظوری سے خواجہ سرا ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتے ہیں، جائیداد میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے بھیک منگوائے تو اس پر 50000 روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔

اس قانون کے یقینا بہت مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کمیونٹی کے وہ لوگ جو نارمل اور با وقار زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ باعزت روزگار حاصل کرسکیں گے۔ جائیداد میں اپنا حصہ لے کر کاروبار کرسکیں گے اور گھروں سے در بدر نہیں کیے جا سکیں گے۔

ٹرانس جینڈر قانون میں قابل اعتراض کیا ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ قانون خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے اتنا اہم ہے تو مذہبی حلقے اس پر کیوں معترض ہیں؟ کیا مذہبی جماعتوں کو خواجہ سراؤں کو حقوق دینے پر اعتراض ہے اور وہ انہیں جوں کا توں مظلوم اور محکوم رکھنے کی حامی ہیں؟

بات دراصل یہ ہے کہ مذہبی حلقوں کو بنیادی طور پر اس قانون کے مرکزی خیال، اس کے پیغام اور مجموعی ڈھانچے پر کوئی اعتراض نہیں۔ وہ خواجہ سراؤں کو حقوق دینے کے حامی ہیں، تاہم انہیں اس قانون کی چند شقوں پر اعتراض ہے، جن میں کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔

یہ قانون جیسا کہ بتایا گیا بنیادی طور پر حقیقی خواجہ سراؤں کے تحفظ کےلیے تھا، لیکن  ہوا یہ کہ اس کی کچھ شقوں میں جان کر یا انجانے میں کچھ ایسی باتیں شامل کی گئیں جو اسلامی تعلیمات اور احکامات سے ٹکراتی ہیں اور اس بنا پر دستور پاکستان کے بھی منافی ہیں۔

متنازع شقوں میں کیا ہے؟

 مذہبی حلقوں کو خاص طور پر اس قانون کی دفعہ 3 اور اس کی شق 2 پر اعتراض ہے جس میں کہا گیا ہے کہ “کسی بھی شخص کو اپنی جنسی شناخت کے تعین کا حق ہوگا کہ وہ سیلف پرسیشن اور اپنے اندرونی محسوسات کی بنیاد پر اپنی اس جنس کے بر خلاف جنسی شناخت حاصل کر سکتا ہے، جس کے ساتھ وہ پیدا ہوا تھا۔”

یہ شق پیدائشی خواجہ سراؤں کے علاوہ نارمل مرد اور نارمل عورت کو بھی یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنی جنس دستاویزات میں بدل سکتے ہیں۔ مثلا ایک نارمل مرد کو اختیار ہوگا کہ وہ چاہے تو اپنی جنس بدل کر عورت کر دے۔ اس مقصد کیلئے اسے جنس تبدیل کرنے کیلئے کسی طبی عمل سے گزرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، بس ایک سادہ سی درخواست پر بغیر میڈیکل ایگزامیشن کے نادرا پابند ہوگا کہ متعلقہ شخص کی خواہش کے مطابق اس کی جنس کی ڈاکومنٹیشن کرے۔

ہم جنس پسندی کا دروازہ کیسے کھلتا ہے؟

مذہبی حلقوں کا کہنا ہے ہر شخص کو یہ اختیار دینے سے ہم جنس پسندی جو اسلام میں صریح حرام عمل ہے، کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک مرد ایک سادہ درخواست کے ذریعے یہ کہہ کر اپنی جنس بدل کر عورت کر دے کہ اس میں عورت کی فیلنگز ہیں اور پھر کسی مرد سے شادی کر لے۔ یوں ہم جنس شادی کا دروازہ کھلے گا۔ ایسے ہی عورت خود کو مرد لکھوا کر کسی عورت سے شادی کرکے ہم جنس شادی کے بندھن میں بندھے گی اور یہ واضح طور پر ہم جنس پسندی ہے اور اسلام کی نگاہ میں بہت بڑی سماجی برائی ہے۔

اس کے علاوہ ہر شخص کو جنسی شناخت بدلنے کا حق دینے سے اصل خواجہ سراؤں کے حقوق بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایک عورت خود کو مرد لکھوا کر میراث میں مرد کے برابر حصہ لیکر دیگر مرد وارثوں کا حق بھی مار سکتی ہے۔

ان حقائق کی بنیاد پر مذہبی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ دراصل خواجہ سراؤں کو حقوق دلوانے کی آڑ میں LGBTQ کا ایجنڈا نافذ کرنے اور پاکستان میں جنسی بے راہ روی اور ہم جنسی پسندی کو فروغ دینے کی سازش ہے۔

مذہبی حلقوں کا اعتراض درست ہے:

ان حقائق کی بنیاد پر مذہبی حلقوں کا اعتراض  غلط نہیں۔ ویسے بھی انسان کا بنایا ہوا ہر قانون ترمیم اور بہتری کی گنجائش رکھتا ہے۔ اس قانون کا کیس وفاقی شرعی عدالت میں بھی زیر سماعت ہے اور سینیٹ میں بھی جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے اس قانون میں ترمیم کا بل زیر غور ہے۔ وفاقی حکومت بھی سخت عوامی ردعمل کے بعد اس قانون میں ترمیم کا عندیہ دے چکی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تمام حلقوں کو سن کر اس قانون میں موجود ابہام اور اسقام کو دور کر دیا جائے، ورنہ یہ قانون عملا غیر موثر ہو جائے گا، جس سے خواجہ سراؤں کے مظلوم طبقے کو حقوق دینے کا یہ اہم موقع بھی ضائع ہوگا اور قوم میں بھی محاذ آرائی کی کیفیت رہے گی، جو کسی بھی طرح ملکی استحکام کیلئے مناسب نہیں۔

Related Posts