مشرق وسطیٰ کا اچھوت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین کافی عرصے سے خفیہ مذاکرات جاری تھے۔ حال ہی میں سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے واضح اشارے دیے تھے کہ وہ کسی معاہدے کے قریب ہیں۔ اسرائیل پر 7 اکتوبرکے فلسطینی حملے سے ان مذاکرات کا مستقبل اب غیر یقینی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حملہ غلط تھا ؟ نہیں، چونکہ ان مذاکرات میں فلسطینی بطور فریق شریک نہ تھے اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا گیا تھا لہٰذا وہ کسی مذاکراتی عمل کی پروا کرنے کے پابند نہ تھے۔

کچھ احمقوں کا موقف ہے کہ حالیہ حملہ “امن پر حملہ” ہے۔ سوال یہ ہے کہ کونسا امن کہاں کا امن ؟ سب سے پہلے فلسطین کی صورتحال سمجھنی ہوگی تب موقف اختیار کرنا ہوگا۔ فلسطینی 75 سال سے حالت جنگ میں ہیں اور یہ جنگ انہوں نے شروع نہیں کی بلکہ ان پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی ہے۔ دنیا میں ریاستوں کے قیام کے کچھ مسلمہ اصول ہیں اور ان اصولوں کو عالمی قوانین کا تحفظ حاصل ہے۔ اسرائیل کے قیام کے لئے ان طریقوں کے بجائے “لینڈمافیا” بننے کو ترجیح دی گئی کہ زمینوں پر قبضہ کرو اور ریاست بنا لو۔

یہ درست ہے کہ صیہونیوں نے ابتدا میں کچھ زمینیں خریدی تھیں اور فلسطینیوں نے اپنی زمینیں اچھے داموں بیچنے کی حماقت کی تھی۔ اب اگر آپ غور کریں تو دنیا میں کسی نئی ریاست کے وجود میں آنے کا ایک مسلمہ طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی خطے کے باشندے یہ کہہ کر اپنے ملک سے آزادی مانگ لیں کہ ہمارا مذہب و کلچر الگ ہے۔ ہمیں الگ وطن چاہئے۔ فلسطینی زمینیں خریدنے والے اگر فلسطینی ریاست میں ایک عرصہ رہ کر اسی اصول کے مطابق علیحدگی کا مطالبہ کرتے تو بات پھر بھی قابل غور اور معقول ہوتی۔ لیکن صیہونیوں کو تو برطانوی پشت پناہی حاصل تھی سو اس تکلف میں پڑنے کی بجائے ناجائز ریاست بنانے کو ترجیح دی گئی ۔ انہیں لگا تھا کہ پھٹیچر سے فلسطینی کچھ دن رو دھو کر چپ کر جائیں گے مگر یہ ان کی خوش فہمی ہی ثابت ہوئی۔

فلسطین کے مسئلے پر نظر رکھنے والے واقف ہیں کہ کچھ زمینوں کی خریداری کے بعد باقی ماندہ زمینوں پر قبضے کے لئے باقاعدہ صیہونی دہشت گرد تنظیمیں بنائی گئی تھیں اور ان تنظیموں نے فلسطینوں کے قتل عام کی راہ اختیار کی تھی۔ وہی تنظیمیں آگے چل کر اسرائیل کی فوج بن گئیں اور جواباََ اپنے دفاع کے لئے فلسطینیوں کو بھی تنظیمی سہارا لینا پڑا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل بظاہر اپنی ریاست مکمل کرچکا۔ سو وہ چاہتا ہے کہ اب “امن” قائم ہوجائے تاکہ اس کا یہ قبضہ مستحکم ہوسکے اور اس امن کے قیام کے لئے وہ دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس دہشت گردی سے ڈر کر فلسطینی سمجھوتہ کرلیں گے۔ مگر فلسطینیوں کو ان کی دہشت گردی کی پروا ہی نہیں۔ ان کا اب بھی وہی موقف ہے جو 75 سال قبل تھا۔

اس پوری صورتحال میں جو نکتہ سمجھنے کا ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جنگ بندی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ ہاں جنگ میں کبھی طویل تو کبھی مختصر وقفے ضرور آتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ 7 اکتوبر کو فلسطینیوں نے امن پر حملہ کیا ایک نری بکواس ہے۔ خطہ مسلسل حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ میں کچھ وقفے کے بعد فلسطینیوں نے ایک بڑا اور کامیاب حملہ کیا ہے۔ اس حملے کے ذریعے انہوں نے پورے اسرائیل کو صرف جام ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ہر کونے کو بدترین افراتفری سے بھی دوچار کرکے دکھا دیا ہے۔ صرف ایک تنظیم نے نہایت ہی محدود وسائل کے ساتھ ایٹمی اسرائیل کی ناک کاٹ کر اس کے ہاتھ پر رکھدی۔ اور نیتن یاہو فرما رہے ہیں

“ہم دہشت گردوں کے ہر ٹھکانے کو مٹائیں گے”

بھئی تم میں اس کی صلاحیت ہوتی تو یہ ٹھکانے بن پاتے؟ کیا یہ تمہاری اجازت سے بنے تھے؟ ملٹری موبلائزیشن کا شعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ جب ایک ریاست کی باقاعدہ فوج کسی دوسری ریاست کی باقاعدہ فوج کے خلاف حملے کی صورت میں موبلائزیشن کرتی ہے تو یہ نہایت برق رفتار ہوتی ہے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ اسرائیل نہ کوئی باقاعدہ ریاست ہے اور نہ ہی اس کی کوئی فوج ہے۔ اور نیتن یاہو پانچ دن سے یہی کہے جا رہا ہے “ہم فوج موبلائز کر رہے ہیں” اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ غزہ میں گھسنے کی جرات ہی نہیں رکھتے۔ ماضی قریب میں غزہ اور لبنان دونوں مقامات پر اسرائیل یہ غلطی کرکے اس کا بھاری خمیازہ بھگت چکا ہے۔

غزہ صرف وہ نہیں جو زمین کے اوپر نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وسیع و عریض زیر زمین دنیا بھی ہے۔ اور وہ دنیا سرنگوں کی ایسی بھول بھلیا ہے کہ صیہونی اس میں اتر تو سکتے ہیں مگر نکل نہیں سکتے۔ فلسطینی کوئی بچے نہیں ہیں کہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا ؟ وہ ہر ردعمل کے لئے تیار تھے اور ہیں۔ سوال بس اتنا سا ہے کہ کیا صیہونی فوج میں ہمت ہے کہ غزہ میں داخل ہوسکے ؟ ہم معلومات کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ وہاں بہت شدت کے ساتھ ان کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ مائیں دعائیں مانگ رہی ہیں کہ یہ غزہ میں داخل ہوں۔ اور یہ بات نیتن یاہو بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ اسی لئے پانچ دن سے بس یہی کہے جا رہا ہے کہ ہم فوج موبلائز کر رہے ہیں۔

یہ 1973ء نہیں ہے۔ تب وہ صیہونی تھے جنہوں نے اسرائیل بنایا تھا۔ اب تو ان کی نسل ہے اور دنیا جانتی ہے کہ بعد کی نسلیں خالقوں جیسی کمٹڈ نہیں ہوتیں۔ اس موجودہ صورتحال میں اسرائیل میں غزہ پر بمباری کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں جس کے شرکاء کو اسرائیلی پولیس نے مار کر بھگا دیا۔ کیا پچاس سال قبل بھی کوئی اسرائیلی اس طرح کے مظاہرے کرتا تھا ؟ بظاہر اسرائیل ایٹمی طاقت رکھنے والا ایک جدید ملک ہے۔ مگر دنیا میں اس کی حیثیت 75 سال بعد بھی ایک اچھوت کی ہے۔ دنیا کی اکثریت اسے تسلیم ہی نہیں کرتی۔ اس کے حوالے سے اگر کچھ تسلیم شدہ ہے تو بس یہ کہ یہ ایک دہشت گرد ناجائز ریاست ہے۔ خود انتہائی باثر یہودیوں کی ایک بڑی تعداد اسے دہشت گرد ریاست مانتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب فلسطینیوں کی اخلاقی پوزیشن یہ ہے کہ ان کے حامیوں میں دنیا کے ہر مذہب کے لوگ ہی شامل نہیں بلکہ کئی مانے ہوئے ملحد بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ اقوام عالم کے باہمی معاملات عالمی قوانین کے تحت چلتے ہیں۔ اور اسرائیل عالمی قوانین کی رو سے ہی ناجائز اور قابض ریاست ہے۔

دنیا کے ہر مسئلے کا حل بات چیت ہی ہوتا ہے۔ سو ہم اس حوالے سے ہر طرح کی بات چیت کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر اسرائیل کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی آزاد و مختار فلسطینی ریاست کے تصور کے لئے بھی تیار نہیں۔ وہ بس یہ چاہتا ہے کہ مسلم ممالک اسے قبول کرلیں اور اس کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے۔ کیونکہ صرف اسی صورت میں اس کا اچھوت ہونا ختم ہونے کی توقع ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات میں اتنے سال کیوں لگے ؟ کیا تنازع اسرائیل و سعودی عرب کے مابین ہے ؟ شام اور اردن کی تو پھر بھی اسرائیل نے زمین قبضہ کر رکھی ہے۔ سعودی عرب کا تو کچھ بھی قبضہ نہیں ہوا۔ پھر بھی اتنا وقت گزرنے باجود تاحال “معاہدے کے قریب ہیں” کی بات کیوں ہو رہی تھی ؟

کیونکہ سعودی بھی جانتے ہیں کہ حقیقی فریق تو فلسطینی ہیں۔ اگر انہوں نے ہی معاہدہ مسترد کردیا تو امن نہیں ہوگا بلکہ فلسطینی تنہاء ہوجائیں گے اور یہ تنہائی عرب نیشنلزم کے غبارے سے ساری ہوا بھی نکال دے گی اور عجمی دنیا میں سعودی قابل نفرت بھی ٹھریں گے۔ سعودی عرب کی صورتحال امارات یا ترکی جیسی نہیں۔ وہ حرمین کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے۔ یہ مرکز کسی ایسے معاہدے کا رسک نہیں لے سکتا جس میں فلسطینوں کے لئے کچھ نہ ہو۔ سو مشرق وسطیٰ کے اچھوت کے پاس واحد آپشن یہی ہے کہ آزاد و مختار فلسطین کے قیام کو قبول کرے۔ ورنہ اس کی ناک روز کٹتی رہے گی اور وہ ہمیشہ اچھوت ہی رہے گا۔

Related Posts