گرفتاریوں کا موسم

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آج سے دو روز قبل پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کو گرفتار کیا گیا اور گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل کے نیوز ہیڈ کو بھی حراست میں لے لیا گیا جس کی اہم وجوہات میں پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور فوج کے اندر بغاوت کو جنم دینے کی کوششیں قرار دی جارہی ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ یہاں نہیں رکے گا تو محسوس ایسا ہوتا ہے جیسے اب گرفتاریوں کا موسم آگیا ہے۔اپنے حالیہ بیان میں سابق وزیرِ داخلہ اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 4 گاڑیاں انہیں گرفتار کرنے کیلئے لال حویلی بھی بھیجی گئی تھیں۔

دوسری جانب موجودہ وزیرِ داخلہ نے گرفتاری کی ضرورت تک کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید چلا ہوا کارتوس ہیں۔ تحریکِ انصاف کی جس میٹنگ کی ہمارے پاس معلومات ہیں، شیخ رشید اس میں موجود نہیں تھے۔

تاہم وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کا 2روز قبل دئیے گئے بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ اگر شیخ رشید کا کردار سامنے آیا تو ان کے خلاف بھی کارروائی کریں گے ، گویا وفاقی حکومت نے گرفتاری کی تردید تو کی لیکن یہ ضمانت نہیں دی کہ شیخ رشید کو آئندہ گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پاک فوج کے جرنیلوں نے ملک پر طویل عرصے تک حکومت کی جس پر سیاستدانوں کی جانب سے مسلسل بیان بازی سامنے آتی رہی جس میں پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی سب کے رہنما شامل ہیں۔

موجودہ دور میں اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے سمجھے جانے والے عمران خان جب تک وزیر اعظم تھے، کوئی توقع بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ فوج کے خلاف کچھ کہہ سکتے ہیں، لیکن حکومت سے محروم ہوتے ہی پی ٹی آئی نے تو اپنا قبلہ ہی بدل لیا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے شہداء کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے تو اس کا الزام پی ٹی آئی پر آتا ہے۔ گزشتہ دور میں ایسے الزامات مسلم لیگ (ن) پر لگائے جاتے تھے تاہم آج تحریکِ انصاف کی باری آگئی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف آج کل پاک فوج کے حق میں بیانات جاری کرتے ہیں۔ وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب ہوں یا وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ، سب پاک فوج اور اس کے شہداء کی عظمت کے گن گاتے نظر آتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو کیا ہوگیا ہے؟

متعدد مواقع پر پی ٹی آئی کے رہنما خود یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پاک فوج یا شہداء کے خلاف نہیں ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم سے تحریکِ انصاف نے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ مہم کے پیچھے اگر پی ٹی آئی نہیں تو پھر کون ہے؟

بالآخر حکومت نے گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پہلے پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ گرفتار ہوئے، پھر شہباز گِل اور پھر نجی ٹی وی چینل کے نیوز ہیڈ۔ گرفتاریوں کے موسم کا آغاز ہی ناقابلِ بیان ہے تو سوچئے انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟

Related Posts