دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ابھی ہم سانحہ اے پی ایس کو نہیں بھولے تھے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائن کی مسجد میں خود کش بم دھماکے نے خون کے آنسو رلا دیا۔ قوم کی خاطر جان دینے والے پولیس اہلکار نماز کے دوران شہید کردئیے گئے۔

دہشت گردی کی حالیہ لہر کا تعلق ملک میں موجود ایک طبقہ ملک کی سیاسی صورتحال سے بھی جوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ مذکورہ طبقے کا کہنا ہے کہ جب عمران خان 2014 میں دھرنا دے رہے تھے تو آرمی پبلک اسکول کا واقعہ پیش آیا۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان آج بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے 2014 کو چلے تھے، اگر پشاور میں اتنی بڑی دہشت گردی نہ ہوتی تو ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے عوام کی توجہ عمران خان پر ہی مرکوز رہتی۔

تاہم نیا سانحہ رونما ہونے سے عمران خان کی دوبارہ سیاست اور وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کی امید دم توڑ گئی ہے۔ گویا یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پشاور کا حملہ دہشت گردوں نے کیا نہیں، بلکہ کروایا گیا ہے۔

ایک طرف دہشت گردی اور بد ترین مہنگائی کا عفریت ہے جو امیر و غریب کی تخصیص کیے بغیر ہر ایک کیلئے وبالِ جان بن گیا جبکہ ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی اور بحران تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ تحریکِ انصاف کا عام انتخابات کا مطالبہ جلد پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیر اعظم عمران خان پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا تاہم وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔ گزشتہ روز عمران خان اور وزیر اعظم شہباز شریف سمیت متعدد شخصیات نے پشاور بم دھماکے کی مذمت کی۔

سکیورٹی اہلکاروں نے دھماکے کی جگہ گھیرے میں لے لی اور سرچ آپریشن شروع کردیا۔ جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کیے گئے۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ دھماکہ کرنے والا حملہ آور مسجد کی پہلی صف میں موجود تھا جس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

قبل ازیں اس قسم کے بم دھماکوں میں بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسی کالعدم تنظیموں کے نام سامنے آتے رہے ہیں جبکہ حکومتِ وقت دھماکوں پر تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج پرخاطر خواہ اقدامات اٹھانے سے قاصر رہی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے گزشتہ روز پشاور خودکش دھماکے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ملک کی تحقیقاتی ایجنسیوں کو انٹیلی جنس کا عمل بہتر بنانے کا مشورہ دیا۔

سانحہ اے پی ایس ہو یا پشاور میں پولیس اہلکاووں کی مسجد میں ہونے والا مہلک بم دھماکہ، ملک کے انٹیلی جنس اداروں اور عدلیہ کو بھی اپنے فرائض بخوبی نبھانے ہوں گے تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات کبھی دوبارہ ظہور پذیر نہ ہوسکیں۔

 

Related Posts