تائی کوانڈو شخصیت میں اعتماد پیدا کرتا ہے: عائشہ خان، ماہا کامران کی گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک کی نمائندگی اور قوم کا نام روشن کرنا ایک ایسا خواب ہے جو کسی بھی ملک کا ہر با شعور اور ہنر مند شہری دیکھتا ہے، تاہم یہ اعزاز کسی کسی کا ہی مقدر ٹھہرتا ہے۔

پاکستان کا دامن ایسے سپوتوں سے کبھی خالی نہیں رہا، جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں پاکستان کا نام روشن نہ کیا ہو۔ ایسی ہی دو اسٹار نو عمر لڑکیوں عائشہ خان اور ماہا کامران سے ایم ایم نیوز نے بات چیت جنہوں نے ایشین چیمپئن شپ میں تائی کوانڈو کے عالمی مقابلوں میں حصہ لیکر ملک کی نمائندگی کی اور ملک کیلئے اعزاز جیتا۔

مہا کامران کے والد کامران قمر قریشی تائی کوانڈو ایسوسی ایشن سندھ کے صدر اور انٹرنیشنل ریفری بھی ہیں، ایم ایم نیوز کے ساتھ گفتگو میں کامران قمر قریشی اور عائشہ خان کے کوچ بھی شریک ہوئے۔ سب سے پہلے کامران قمر قریشی سے ہم نے جاننا چاہا کہ ایشین چیمپین شپ کیسی تھی اور یہ کہاں منعقد ہوئی اور کتنی ٹیموں نے اس میں حصہ لیا؟

کامران قمر قریشی: یہ در اصل کومبیکس تائی کوانڈو چیمپین شپ کی جی ٹو رینکنگ کا ایونٹ ہے، یہ اسلام آباد میں ہماری فیڈریشن کے تحت منعقد ہوا۔ گزشتہ سال جی ون رینکنگ میں ہوا، اس بار جی ٹو میں ہوا۔ اس میں 23 ممالک نے حصہ لیا اور جونیئر اور سینئر دونوں رینک کا ایونٹ ہوا۔ اس ایونٹ میں میری بیٹی مہا اور اس کی سہیلی عائشہ خان نے جونیئر تائی کوانڈو رینک میں برانز میڈل حاصل کیا۔ ان بچیوں کا اس عالمی ایونٹ میں شریک ہونا ہی بڑی بات تھی مگر انہوں نے بہترین کارکردگی سے کانسی کے تمغے جیتنے میں بھی کامیابی حاصل کی، جو یقینا ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔

ایم ایم نیوز: مہا آپ بتائیں کہ ایشین چیمپین شپ کے اس ایونٹ میں اتنی بڑی کامیابی پر کیا فیلنگ تھی آپ کی اور اس کے پیچھے تیاری کتنی تھی؟

مہا کامران: میں بحریہ کلب میں کھیلتی ہوں اور یقینا کسی بھی عالمی مقابلے میں شرکت کیلئے بہت زیادہ اور معمول سے بڑھ کر ٹریننگ اور تیاری کرنی پڑتی ہے، میں نے بھی بھرپور تیاری کی اور الحمد للہ میڈل لینے میں کامیاب ہوئی۔ میڈل لینے کے بعد یہی فیلنگ تھی کہ ان غلطیوں سے سیکھوں جن کی وجہ سے میں گولڈ میڈل نہیں لے سکی اور برانز میڈل ہی لے پائی۔ 

ایم ایم نیوز: مہا یہ بتائیں کہ آپ تائی کوانڈو کب سے کر رہی ہیں اور ایشین چیمپین شپ کیلئے تیاری کیسے کی؟

ماہا کامران: میں سات آٹھ سال سے تائی کوانڈو سے وابستہ ہوں۔ پہلے زیادہ شوق سے نہیں کھیلتی تھی مگر پھر آہستہ آہستہ شوق بڑھتا چلا گیا۔ چیمپئن شپ کیلئے میں نے روزانہ تقریبا تین سے چار گھنٹے ٹریننگ کی۔ اس کے علاوہ کھانے پینے میں بھی احتیاط کرنی پڑتی ہے، جس سے میں گزری۔ پھر میڈل لینے پر فوکس تھا تو معمول سے ہٹ کر ایکسٹرا ٹریننگ اور پریکٹس کرنی پڑی۔

ایم ایم نیوز: مہا آپ ابھی انڈر 17 ہیں، یہ بتائیے کہ تعلیم کے ساتھ کیا تائی کوانڈو کو لیکر چلنا آسان ہے یا بس شوق میں یہ سب ایک ساتھ ہو رہا ہے؟

ماہا کامران: جی شوق کی ہی بات ہے کہ جب شوق ہو تو پھر تعلیم اور کھیل دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پلاننگ کرنی ہی پڑتی ہے۔ مجھے اس حوالے سے میرے اسکول کی بھی بھرپور معاونت حاصل ہے، چیپمین شپ کی تیاریوں کے دوران امتحانات آئے تو اسکول نے مجھے مقابلے کی تیاریوں کیلئے اجازت دی۔ پھر میں جیت کر آئی تو میری بھرپور حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی گئی۔

ایم ایم نیوز: آپ کے والد آپ کے کوچ بھی ہیں، یہ بتائیں کہ آپ کو ان کی کتنی سپورٹ حاصل رہی؟

ماہا کامران: میں آج اس مقام پر ہوں تو یہ ظاہر ہے میرے والد کی سپورٹ کا ہی نتیجہ ہے، یہ انہی کا ڈریم تھا کہ ان کی بیٹی کھیلے اور مقام بنائے، چنانچہ انہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی، سپورٹ فراہم کی اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ 

ایم ایم نیوز: یہ بتائیے کہ آپ کی بچی ابھی زیر تعلیم ہے، اس کے باجود اس نے مقابلے میں حصہ لیا اور میڈل جیتا، یہ بتائیں کہ بچے تعلیم کے ساتھ اسپورٹس کو کیسے لیکر چل سکتے ہیں؟

کامران قمر قریشی: والدین کو موٹیویٹ کرنا پڑتا ہے کہ آپ تعلیم اور اسپورٹس دونوں میں بچوں کیلئے مناسب وقت کا انتظام کریں، پھر جب اس طرح کے ایونٹ آتے ہیں تو ہمیں کئی ماہ پہلے ہی پتا ہوتا ہے تو ہم بچوں کے والدین کو بتا دیتے ہیں کہ اتنے عرصے بعد ایونٹ آ ئے گا، آپ اپنے بچے کو اس حساب سے تیاری کروائیں، مگر کچھ والدین سپورٹ کرتے ہیں کچھ نہیں کرتے۔ جو کرتے ہیں ماشاء اللہ ان کے بچے پھر مہا اور عائشہ کی طرح ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: عائشہ خان یہ بتائیے کہ جب برانز میڈل آپ نے اچیو کیا تب آپ کی کیا فیلنگ تھی اور اس کیلئے کیا تیاری کی تھی؟

عائشہ خان: فیلنگ یہی تھی کہ جتنی محنت کی تھی وہ پوری تو حاصل نہیں ہوئی مگر جیت گئی، یہ بھی خوشی کی بات ہے۔ یہ بھی خوشی تھی کہ چلیں اپنے ملک کیلئے کچھ تو حاصل کرلیا۔ جہاں تک تیاری کی بات ہے تو اس ایونٹ کیلئے میں نے تیاری چار سے پانچ ماہ پہلے سے شروع کی تھی۔ میں چار سال سے تائی کوانڈو کر رہی ہوں۔ اس ایونٹ کیلئے سر کامران نے بھرپور سپورٹ کی۔ ہمیں بتایا کہ ایسی محنت کرو کہ کل جب کچھ حاصل کرو تو تمہیں فیل ہو کہ تم نے ڈیزرو کیا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: عائشہ یہ بتائیے کہ آپ کیا سمجھتی ہیں کہ ایسی کیا غلطیاں ہوئیں جن کی وجہ سے آپ گولڈ نہیں لے پائیں اور آئندہ ان غلطیوں کو نہیں دہرائیں گی؟

عائشہ خان: مجھ سے چند غلطیاں ہوئیں، ایک یہ کہ میں نے اپنے ڈائٹ پلان پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ پھر ایونٹ کے دوران کراؤڈ کو دیکھ کر ذرا نروس ہوگئی، جس کے باعث مقابلے کے دوران میں کچھ کنفیوز ہوئی۔ 

ایم ایم نیوز: فائٹ کے دوران آپ کو کس ملک کی ٹیم خود سے اچھی محسوس ہوئی؟

عائشہ خان: مصر کی ٹیم کی فائٹ اور کھیل کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ان کی پریکٹس، ٹریننگ ہم سے بہت اچھی ہے اور وہ ہم سے زیادہ کلیئر مائنڈ سیٹ کے ساتھ مقابلے کا حصہ ہیں۔

ایم ایم نیوز: یہ بتائیں آپ کس طرح تائی کوانڈو کی طرف آئیں، کس سے انسپائر ہوئیں؟

عائشہ خان: میں نے اسکول سے ہی شروع کیا تھا، اسکول ایج میں بھی اس طرح میری مما مجھے لے آئیں۔ وہ کہتی تھیں کہ بیٹا یہ سیلف ڈیفنس کیلئے اچھا ہے، ویسے بھی کوئی ایکٹویٹی رکھنی چاہیے، یہ اچھی سرگرمی ہے، شروع میں مجھے بہت مشکل اور برا لگتا تھا مگر والدہ کی طرف سے فورس کیے جانے کے بعد میرا شوق بھی اس میں بڑھ گیا اور اب یہی میرا شوق ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ دونوں تائی کوانڈو کو مختصر لفظوں میں متعارف کرائیں تو کیسے کریں گی؟

عائشہ خان، ماہا کامران: تائی کوانڈو محض ایک کھیل یا تفریح یا پھر پریکٹس نہیں بلکہ یہ شخصیت میں بھرپور اعتماد پیدا کرتا ہے، اس لیے خواتین کو بالخصوص یہ ضرور سیکھنا چاہیے۔

Related Posts