سورۃ الکوثر کی سیرتِ نبوی ﷺ میں اہمیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

قرآنِ مجید کی 108ویں اورمختصر ترین سورۃ الکوثر جس میں صرف 3 آیات ہیں، مسلمان اس سے اچھی طرح واقف ہیں کیونکہ اس کے اختصار کے باعث یہ وہ سورۃ ہے جسے نماز ادا کرنے کے دوران سورۃ الاخلاص کی طرح سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔

سورۃ الکوثر کے مختصر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی سیرتِ نبوی ﷺ میں کوئی اہمیت نہیں یا بہت کم اہمیت ہے کیونکہ اس اہم سورۃ کے نزول کا پس منظر ہی ہمارے دلوں میں نرمی پیدا کرنے کیلئے کافی ہے جسے جان کر ہم اس خوبصورت سورۃ کی تعریف پر مجبور ہوجائیں گے جبکہ یہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ذاتِ اقدس کے متعلق ہے۔

مکی دور کے وسط میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں انتہائی المناک واقعہ پیش آیا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر نازل فرمائی۔ ہم جانتے ہیں کہ نبئ آخر الزمان ﷺ کے ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطنِ مبارک سے 6 بچے پیدا ہوئے جن میں سے ایک کا نام حضرت قاسم رضی اللہ عنہ تھا جو پہلی قرآنی سورۃ اقراء کے نزول سے قبل پیدا ہوئے اور 6 یا 7 سال کی عمر میں وحی سے قبل وفات پا گئے۔ وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ کی 2 یا 3 بیٹیاں تھیں۔ 

اس موقعے پر قریش نے رسول اللہ ﷺ کا مذاق اڑانا اور تمسخر کرنا شورع کردیا کہ کیونکہ محمد (ﷺ) کے کوئی بیٹے نہیں ہیں، اس لیے ان کے وصال کے بعد اسلام معاذ اللہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ دورِ جاہلیت میں عرب قوم پدرانہ بنیادوں پر پنپ اور پھل پھول رہی تھی جہاں بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔ اپنی جہالت کے باعث قریش کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ وصال پاجانے کے بعد نعوذ باللہ لاوارث ہوجائیں گے کیونکہ آپ ﷺ کی کوئی اولادِ نرینہ نہیں تھی۔

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کے دوسرے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا وحی کے نزول کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کی خبر سنتے ہی قریش غم و اندوہ میں مبتلا ہو گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے دلوں میں رحمت اللعالمین ﷺ کیلئے کس قدر بغض اور کینہ بھرا ہوا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی پیدائش کے 18ماہ بعد ہی انتقال فرما گئے جس کا قدرتی طور پر رسول اللہ ﷺ کو غم ہوا۔ دوسری جانب قریش اس سانحے پر خوشیاں منانے لگے۔

اپنی جہالت کے باعث حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دشمنوں نے سوچا کہ حضرت عبداللہ کی وفات کے ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ معاذ اللہ بے نام و نشان یا لاوارث ہو گئے ہیں۔ یہی وہ غم کی گھڑی تھی جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر نازل فرمائی۔

غور کیا جائے تو سورۃ الکوثر کا نزول حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تسلی تھا۔ سرورِ عالم ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے جو میرے لیے اس ساری دُنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے سورۃ الکوثر کی تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہم سب جانتے ہیں: بے شک ہم نے  تمہیں خیرِ کثیر (کوثر) عطا کی ہے۔ پس تم اپنے رب کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بے شک تمہارادشمن ہی بے نام و نشان ہے۔

یوں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر کے ذریعے سمجھایا کہ جب انسان کوئی چیز کھو دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کوئی اور نعمت عطا فرماتا ہے۔ پروردگارِ عالم نے رسول اللہ ﷺ کی وفات پر تسلی دیتے ہوئے خیرِ کثیر عطا فرمانے کی خوشخبری سنائی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوثر سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوثر سے مراد جنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں اور وہ اعلیٰ قسم کے موتیوں اور یاقوت کے اوپر سے بہتی ہے۔

اس کے پانی کا ذائقہ شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار ہے۔  یہ حدیث امام مسلم، ترمذی اور ابنِ ماجہ میں روایت کی گئی ہے۔ تمام اہلِ جنت ان شاء اللہ ہمارے نبی ﷺ کے ہاتھوں سے حوضِ کوثر کا پانی پئیں گے۔ یہ جنت میں ان تمام لوگوں کیلئے نبئ مکرم ﷺ کا تحفہ ہوگا جو اہلِ ایمان ہوں گے۔ عربی میں کوثر کا مطلب کثرت ہے، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حوضِ کوثر کبھی خشک نہیں ہوگا۔

دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ پس اپنے رب کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی واجب و اختیاری نمازیں اللہ تعالیٰ کیلئے صرف کریں جبکہ نماز دنیا و آخرت کی وافر نعمتوں کی تعریف کی ایک صورت قرار دی جاسکتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو اونٹ کی قربانی کا حکم دیا۔ سورۃ الکوثر کے نزول کے وقت رسول اللہ ﷺ کی ملکیت میں کوئی اونٹ نہیں تھا، نہ ہی آپ ﷺ کو استطاعت تھی کہ اونٹ خرید سکیں جبکہ سورۃ کی تفسیر کے مطابق آپ ﷺ کو ایک سے زائد اونٹ قربان کرنے کا حکم دیا گیا۔

یہ آیت پیشن گوئی ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ کے پاس بہت زیادہ مال ہوگا۔ جب ایسا ہوجائے تو یقین کرلیں کہ رسول اللہ ﷺ مالی اعتبار سے غنی ہیں۔ دس سال بعد حجۃ الوداع کے موقعے پر رسول اللہ ﷺ نے 100 اونٹوں کی قربانی کی جن میں سے 63 رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک سے جبکہ باقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قربان فرمائے۔ سورۃ الکوثر ہمیں سکھاتی ہے کہ ہماری عبادت صرف نعمتوں کیلئے صرف اللہ کی تعریف کرنا نہیں بلکہ قربانی کرنا بھی ہے۔

آخری آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ بے شک تمہارا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔ مطلب یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے دشمن بے نام و نشان یعنی لاوارث ہیں۔

آج کسی کو ابوجہل اور ابو لہب جیسے لوگوں کی اولادیں یاد نہیں لیکن ہمارے نبی ﷺ دنیا بھر میں 1 ارب سے زائد پیروکاروں کے ساتھ وارثوں کی سب سے بڑی میراث رکھتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کو ہی بے نام و نشان یعنی ابتر کردیا۔ 

Related Posts