تنظیم “راؤڈی رائیڈرز” جو کراچی کی خواتین کو بائیک چلانا سکھا رہی ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

(فوٹو عرب نیوز)
(فوٹو عرب نیوز)

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں اگرچہ خواتین پر کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے تاہم بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں خواتین کی نمائندگی نہیں ہے اور ان شعبوں میں خواتین کی موجودی کو معاشرتی طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

موٹر سائیکلنگ بھی ایسا ہی ایک شعبہ ہے، جس میں خواتین کی شراکت محض اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پچھلی سیٹ پر سواری تک محدود ہے، اگرچہ خواتین کیلئے موٹر سائیکل چلانے پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

تاہم اب کاروبار زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح وہیلنگ اور موٹر سائیکلنگ کے میدان میں بھی خواتین آ رہی ہیں اور بائیکس اور موٹر سائیکلز لیکر میدان ہی نہیں پر ہجوم سڑکوں اور بازاروں کا بھی رخ کرتی نظر آ رہی ہیں۔

مہم جوئی کیلئے شوقیہ سائیکلنگ میں بھی اگرچہ کئی ایک پرعزم لڑکیوں اور خواتین کا نام موجود ہے تاہم مہم جوئی والی سائیکلنگ اور بائیکنگ ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں پاکستان میں مرد حضرات کی بھی کوئی نمایاں موجودی اور شراکت نہیں ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اکا دکا خواتین سڑکوں اور شاہراہوں پر اسکوٹیز اور بائیکس دوڑاتی دکھائی دے رہی ہیں، تاہم اب ایک تنظیم نے خواتین کی بڑی تعداد کو گھروں سے بائیکس کے ذریعے سڑکوں پر لانے کی ٹھان لی ہے۔

یہ “راؤڈی رائیڈرز”  نامی تنظیم ہے، جس نے خواتین اور لڑکیوں کو بائیکر بنانے کا بِیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اس تنظیم کے تحت قلیل عرصے میں سینکڑوں خواتین اور لڑکیوں نے بائیکس چلانے کی تربیت حاصل کرنے کیلئے رجسٹریشن کروائی ہے۔

40 سالہ خاتون زینب صفدر “راؤڈی رائیڈرز” کی انسٹرکٹر ہیں جو کراچی میں نو آموز خواتین کو بائیک پر توازن برقرار رکھنے کی بنیادی باتوں سے لے کر ہائی آکٹین گیئر تبدیل کرنے اور کافی زیادہ ٹریفک میں بائیک چلانے تک سب کچھ سکھاتی ہیں۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں مٹھی بھر خواتین بائیکرز سے “راؤڈی رائیڈرز” کا آغاز ہوا، اب اس کے رجسٹرڈ شرکا کی تعداد 1,500 سے زیادہ ہے، جو سب گھریلو، طالبات اور پیشہ ور خواتین ہیں۔

زینب صفدر  کے مطابق ماضی میں لڑکیوں کے بائیک چلانے کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں، مگر اب خوش قسمتی سے زیادہ بہتر شعور نے ان تصورات کو دور کر دیا ہے۔

تنظیم کے تحت رجسٹرد بائیکرز میں سے زیادہ کا تعلق کراچی کے متوسط طبقے سے ہے، ان میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ ٹریننگ میں شریک ہوتی ہیں۔

ان خواتین کا ماننا ہے کہ موٹر سائیکل اور بائیک چلانے میں مہارت ان کے بہت سے مسائل کے حل کی راہ کھول دے گی اور وہ پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں اپنی زندگی آگے بڑھائیں گی۔

Related Posts