پب جی گیم کا قصہ، پی ٹی اے کی پابندی سے لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے تک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پب جی گیم کا قصہ، پی ٹی اے کی پابندی سے لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے تک
پب جی گیم کا قصہ، پی ٹی اے کی پابندی سے لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے تک

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ کیا کہ پب جی گیم پر عائد پابندی ہٹا دی جائے جبکہ پی ٹی اے کے مطابق پب جی نامی آن لائن گیم پر پابندی عوامی شکایات کے تناظر میں لگائی گئی۔

پب جی گیم کے تکنیکی پہلو

تکنیکی اعتبار سے پب جی کو تھرڈ پرسن شوٹر کہا جاتا ہے یعنی یہ ایک ایسی گیم ہے جس میں گولیاں برسانے والا کردار آپ کو جیتا جاگتا دِکھائی دیتا ہے۔ وہ دوسرے دشمنوں اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرتا ہے اور گولیاں مار کر انہیں قتل کرتا ہے۔

موجودہ دور میں گرافکس کے میدان میں زبردست ترقی کے باعث پب جی گیم میں کھیلنے والے کو خون خرابہ، مارپیٹ اور آتشزدگی وغیرہ، سب کچھ حقیقی محسوس ہوتا ہے جس سے انسانی ذہن پر عجیب و غریب اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ پب جی میں دکھائے گئے مقامات اور انسان جو ایک دوسرے کے خلاف مرنے مارنے پر تلے ہوتے ہیں، حقیقت محسوس ہوتے ہیں۔

پب جی کا انسانی ذہن پر منفی اثر کیوں؟

حقیقت یہ ہے کہ انسانی ذہن جذبات و احساسات کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ گیم کھیلتے کھیلتے پلیئرز کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بے شمار افراد کو قتل کر رہے ہیں، اس لیے یا تو وہ قتل کرنے کو عام بات سمجھنے لگتے ہیں یا پھر انہیں لاشعوری طور پر زندگی سے بے زاری پیدا ہونے لگتی ہے۔

زندگی سے بے زاری انسان کو خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی پب جی گیم کھیلنے والے متعدد افراد کرچکے ہیں جس  کامظاہرہ ہم نے لاہور میں بھی دیکھا جہاں اب تک پب جی کھیلنے والے 3 نوجوان خودکشی کرچکے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ پب جی کے ذریعے انسانی ذہن پر پڑنے والے منفی اثرات کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہیں۔

پی ٹی اے نے پابندی کیوں لگائی؟

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کو پب جی کے خلاف عوام کی طرف سے شکایات موصول ہوئیں۔ پی ٹی اے کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ عوام نے ہم سے شکایت کی کہ ہمارے بچے پب جی کھیل کر ذہنی طور پر مختلف امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے پب جی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

آج بھی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ہم نے پب جی پر عائد پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ فیصلے کے خلاف سماعت لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے تحت کی گئی۔

سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف صارفین کا غم و غصہ

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہزاروں ٹویٹس کیے گئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو پب جی پر عائد پابندی کے پی ٹی اے اقدام کے خلاف کچھ کرنا چاہئے۔ دیگر افراد نے عدلیہ سے درخواست کی کہ ہم پب جی کھیل کر سستی تفریح حاصل کر رہے تھے۔ پی ٹی اے کو پابندی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔

یہی نہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے خلاف نازیبا زبان بھی استعمال کی گئی۔ وزیرِ اعظم عمران خان سے لے کر وفاقی حکومت کے متعلقہ وزراء اور حکام کو برا بھلا بھی کہا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر پب جی سے پابندی نہ ہٹائی گئی تو یہ انتہائی ظالمانہ اقدام ہوگا۔

پب جی نامی گیم کتنی اہم؟

جیسے ہی پب جی سے پابندی ہٹانے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم سامنے آیا سوشل میڈیا پر پب جی کے ٹرینڈز میں مزید اضافہ ہوا۔ شکریہ وقار ذکاء کے ٹرینڈ کے تحت کم و بیش 13 ہزار 700 ٹویٹس کیے گئے۔

شکریہ وقار ذکاء کا ٹرینڈ اِس لیے بنایا گیا کیونکہ معروف کمپیئر وقار ذکاء نے عدالت میں پب جی پر عائد ہونے والی پابندی کے خلاف پٹیشن دائر کی۔ اِس لیے وقار ذکاء ہیرو قرار پائے۔

دوسرے نمبر پر ٹاپ ٹرینڈ پب جی بین اِن پاکستان کے تحت سوشل میڈیا صارفین نے 16 ہزار 900 ٹویٹس کیے۔ آئی ٹی منسٹر ریزائن کرو اِس سے پہلے کا ٹرینڈ تھا جو تیسرے نمبر پر رہا۔

تیسرے نمبر پر آنے والے ٹاپ ٹرینڈ کے تحت صارفین نے 46 ہزار سے زائد پیغامات ارسال کیے جس سے پب جی کی سوشل میڈیا صارفین کے نزدیک  اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اور نوجوانوں کا مستقبل 

سب سے آخر میں ہمارا سوال یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تو پی ٹی اے کو پب جی سے پابندی ہٹانے کا حکم دے دیا ہے، اب نوجوان نسل کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیونکہ ہمارے نوجوان تو پب جی کھیل کھیل کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ملک کا مستقبل تباہ و برباد ہورہا ہے۔

اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پب جی پر عائد کی گئی پی ٹی اے کی پابندی نہ پہلے مفید تھی  اور نہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ اگر یہ پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کر لے تو اِسے مسئلے کا حل قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ آن لائن گیمز پابندی کے باوجود بھی کھیلی جاتی ہیں اور جو لوگ غیر قانونی طور پر گیم کھیلنا چاہتے ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح کھیل لیتے ہیں۔

یاد رکھنے کی اہم بات یہ بھی ہے کہ پب جی کھیلنے والے تمام لوگ خودکشی نہیں کرتے بلکہ خودکشی کا رجحان یا نفسیاتی مسائل چند حساس قسم کے اذہان کو پیش آتے ہیں جنہیں اِس قسم کی تمام گیمز سے دور رہنا چاہئے۔

اپنے لیے بہتر مستقبل کا انتخاب خود آپ سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ حکومتی اقدامات، عدلیہ کے احکامات اور پولیس کی کارروائی پر بھروسہ کرکے اپنے مستقبل کو ان پر چھوڑنا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔ 

اگر ہم اپنی نوجوان نسل کو پب جی جیسی گیم کی تباہ کاریوں سے بچانا چاہتے ہیں تو پی ٹی اے کے حکم کے بغیر بھی انہیں پب جی یا ایسی ہی کسی تشدد پسند گیم کو کھیلنے سے روک سکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔ 

Related Posts