مقروض قوم کے مسائل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کسی زمانے میں لوگوں کو خوف ہوتا تھا کہ ملکوں میں جنگ ہوگئی تو قحط کی صورتحال پیدا ہوجائیگی، کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہوجائینگی اور جینا دشوار ہوجائیگا لیکن آج دیکھا یہ جارہا ہے کہ بغیر جنگ  کے ہی قحط، بھوک، بیروزگاری اور بدحالی جیسے حالات نظر آرہے ہیں۔

پاکستان میں غربت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور عوام پریشان ہیں کہ ان کے مسائل کا حل کون لے کر آئیگا۔بیرون ممالک کے لوگ جو انسانیت کا پرچم اٹھاکر دنیا بھر میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ دنیا سے غربت دور کرو ، وہ اپنے ہی اداروں کی طرف نہیں دیکھتے کہ ان کے غط فیصلوں کی وجہ سے تمام غریب ممالک کے عوام آج غربت کا شکار ہو گئے ہیں۔ 

چاہے روس یوکرین جنگ ہو یا چین اورامریکا کی رسہ کشی ، ہرصورت غریب ملکوں کو درد سہنا پڑتا ہے۔اقوام عالم میں تیل کے ذخائر لئے ہوئے مسلمان ملک بھی اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف تجارت کررہے ہوتے ہیں اور انسانیت کو بھلا بیٹھتے  ہیں۔

آج تک یہ نہیں سنا کہ کسی مسلمان ملک نے کسی غریب ملک کو تیل فروخت کیاہو ، ان کی دریا دلی صرف ادھار پر تیل دینے میں نظر آتی ہے جس کا وہ معاوضہ سود کی صورت میں وصول کرتے ہیں لیکن اسلامی نامی اصطلاح جو بینکنگ میں استعمال ہوتی ہے ، اس کی مدد لیتے ہوئے اس سود کو بھی جائز بنا دیا جاتا ہے۔

ظاہر ہے جب تیل کی قیمتیں بڑھیں گی تو اس سے معیشت پر بھاری بوجھ آئیگا۔انہی تیل کی قیمتوں پر  آئی ایم ایف بھی اپنی چھری کی دھار تیز کرلیتا ہے تاکہ غریب ممالک کی کھال اتاری جاسکے اور غریب ممالک پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا جائے جس سے بینکوں کو اپنی اصل رقم اور سود کی وصولی  میں آسانی ہوجاتی ہے۔

پاکستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی ہم اسی بات پر رویا کرتے تھے کہ پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو نہ بڑھایا جائے لیکن آج دیکھا یہ جارہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کی ہو یا ن لیگ کی، دونوں ہی آئی ایم ایف کے سامنے مجبور ہیں جس کی وجہ سے تمام اشیاء پر ٹیکسز میں اضافہ کیا جاتا  ہے۔

بجلی،گیس اور پیٹرولیم قیمتوں میں ہونیوالا اضافہ صرف ان تین چیزوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان 3 چیزوں کی وجہ سے اشیائے خوردونوش سمیت تمام اشیاء کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور مہنگائی کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔

سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو آئی ایم ایف کو برابھلا کہتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد مجبوری کا عذر تراش کرحالت کو جواز بناکر آئی ایم ایف کے سامنے بڑی آسانی سے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔

معیشت پر دباؤ آج تک اسی لئے آیا ہے کہ ہم نے جب بھی ترقیاتی کام کئے ہیں تو مقررہ بجٹ سے زیادہ اخراجات کیے گئے اور وقت سے پہلے منصوبے کو تیار دیکھنے کی خواہش رہتی ہے،جس کی مثال سی پیک کی ہے۔سی پیک پاکستان کیلئے ایک بہت فائدہ مندمنصوبہ تھا جو آج ملک کو بے تحاشہ قرضوں میں ڈبوچکا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سی پیک کے تمام منصوبوں میں جو تخمینہ لگایا گیا تھا،  اس سے کئی گنا زیادہ اخراجات کئے گئے تاکہ وہ وقت سے پہلے تیار ہوجائے، اگر سی پیک کے منصوبوں کو اپنی آمدنی کے مطابق آہستہ آہستہ لے کر چلتے تو ہم پر قرضوں کا بوجھ نہ ہوتااور ان منصوبوں سے ہم منافع کماسکتے تھے لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہوتا جب ہمارے سیاستدان اپنی سیاست چمکانے کے بجائے ملک و قوم کے مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرتے۔

آج ہمارے تمام فیصلوں پر  ہمیں کئی بار نظر ثانی کروائی جاتی ہے، کبھی چین تو کبھی امریکا سے ہمیں مشورے دیئے جاتے ہیں اور ہم اکثر اوقات دباؤ میں آکر ایسے فیصلے کرلیتے ہیں جو ہمارے لئے شائد مناسب نہیں ہوتے۔

ہم جب روس سے سستا تیل خریدنا چاہتے ہیں تو امریکا ناراض ہوجاتا ہے، سعودی عرب  سے خریدتے ہیں تو ایران کی ناراضگی کا سامنا کرناپڑتا ہے اور انہی مسائل کی وجہ سے ہم نے آج تک کبھی سستا تیل نہیں خریدا جبکہ بھارت نے ہمیشہ سے ایران اور روس سے سستا تیل خریدا اور ان پر کبھی سعودیہ نے اعتراض کیا نہ امریکا نے، شائد یہ دونوں ممالک اپنا دباؤ ہم پر اس لئے ڈالتے ہیں کیونکہ ہم ان کے قرضدار ہیں۔

Related Posts