سیاست کی جنگ میں معیشت بدحال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستانی عوام اور حکومت ہر چیز میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں، کبھی جلد سے جلد امیر ہونے یا کبھی فوری لیڈر بننے کی چاہ میں ہم فوری طور پر ایسے فیصلے کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے آگے چل کر ہمیشہ نقصان یا پچھتاوا ہوتا ہے۔

سیاست دانوں کی بات کی جائے تو سیاستدانوں کی پالیسیاں اور قانون سازی اپنی ذات اور جماعت تک محدود رہتی ہے اور ان کا مقصد صرف اپنی واہ واہ ہوتی ہے لیکن بعض اوقات اپنی مشہوری اور واہ واہ کے چکر میں ایسے فیصلے کرجاتے ہیں جس سے ملکی معیشت پر دباؤ آتا ہے اور ادارے تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔

جس وزیرپر نظر ڈالیں وہ اپنے دور میں کوشش کرتا ہے  کہ اپنے ماتحت ادارہ میں اپنے لوگوں کی بھرتیاں کرلیں تاکہ ان کا ووٹ بینک مضبوط ہو یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک میں کوئی حکومتی ادارہ کامیاب نہیں ہوسکا۔

سیاست سے قطع نظر اگر عوام کی طرف دیکھا جائے تو عوام بھی کوٹہ سسٹم کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کوٹہ سسٹم کے تحت جہاں نوکری ملتی ہے وہاں بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان کا مطمع نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ بس سرکاری نوکری مل رہی ہے جہاں زندگی سنور جائیگی اور بڑھاپا بھی سکون سے کٹ جائیگا۔

حقیقت یہ ہے کہ سرکاری نوکری میں تنخواہیں نجی ملازمت کی نسبت کئی گنا کم ہے اور سرکاری تنخواہ میں ایک اچھی زندگی گزارنا ممکن نہیں لیکن سرکاری ملازمین اپنے اختیارات کا بھرپور فائدہ اٹھاکر ایک بادشاہ جیسی زندگی گزارتے ہیں۔

سرکاری ملازمت کے دوران ملازمین کو رشوت خوری اور کرپشن کا ایسا چراغ ملتا ہے جس رگڑ رگڑ کر وہ اپنی تمام خواہشات کو پورا کرلیتے ہیں اور کرپشن اور رشوت خوری کی عادت کو مزید پختہ کرنے کیلئے سیاست کے میدان میں کود جاتا ہے اور ہر جائز و ناجائز کیلئے آزاد ہوکر ایک شاہانہ زندگی گزارتا ہے۔

سیاسی لوگ کہتے ہیں کہ وہ سرکاری ملازمین اور بیوروکریٹس اور دیگر اداروں سے تنگ آچکے ہیں اور جس ادارہ کو دیکھیں وہ اب حکومت کے قابو میں نہیں ہے۔اس کی وجہ تلاش کرنے کی بجائے سیاسی لوگ بھی آج ان اداروں کے لوگوں کی خوشامد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ اصل میں یہ ہونا چاہیے کہ جس ادارہ میں جوشخص جس قابل ہو اسے اسی کے مطابق تنخواہ وہ اختیار دیا جائے تاکہ وہ اپنے اخیارات کا درست استعمال کریں اور اپنے ادارہ کی خدمت کریں۔

ہم نے ماضی سے آج تک کچھ نہیں سیکھا اداروں کے اوپر ادارے بناتے چلے گئے جس کی وجہ سے قومی خزانے پر 74 سالوں سے بوجھ بڑھتا چلا گیا۔

کبھی ہم نے پولیس کا محکمہ بنایا تو کبھی ایف آئی اے قائم کیا۔ کبھی اینٹی کرپشن تو کبھی نیب تشکیل دیا تاہم اگر دیکھا جائے تو یہ تمام کام ایک ہی ادارہ کرسکتا ہے لیکن ہم نے اپنی سہولت کیلئے ایک ہی کام کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑ چکے ہیں کیونکہ ہر ادارہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر اپنے قوانین و اصول لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ہر ادارہ اپنی اجارہ داری اور پیسے کمانے کیلئے شہریوں کو اتنا مجبور کردیتا ہے کہ وہ شخص بڑاجرم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

کرپشن نے ہماری سماجی، سیاسی اور مذہبی زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے ،کرپشن پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے ،ملک کا کوئی ادارہ کرپشن کے ناسور سے محفوظ نہیں رہا، کرپشن نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے،بدعنوانی ایک سماجی ظلم ہےاور کرپشن کرنے والے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے اورملک سے غداری کرتے ہیں۔

ہمارے ملک میں پلی بارگین ایسا عجیب گورکھ دھندا ہے کہ ہمار ملک میں موبائل چور،بکری چور یاجیب کترا پکڑا جائے تو پہلے عام شہری درگت بناتے ہیں، پھر پولیس والے اپنا غصہ نکالتے اور آخر میں وہ بے چارہ طویل مدت تک حوالات اور جیل کی ہوا کھاتا ہے لیکن اگر کوئی سیاستدان، بیورو کریٹ یاتاجر و صنعت کار پکڑا جائے تو وہ جیل میں کم اور اسپتال میں زیادہ شاہانہ شب و روز بسر کرتا ہے۔

جس کے بعد کرپٹ عناصرلوٹی گئی رقم کا صرف دس بیس فیصد پلی بارگین کے ذریعے نیب کودے کر بآسانی چھوٹ جاتے ہیں اورباقی ماندہ رقم سے عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔

اربوں کھربوں روپے لوٹنے کے بعد دس یا بیس فیصد رقم کے عوض انسان اگر پرتعیش زندگی بسر کر سکتا ہے تو کس کا قومی خزانہ لوٹنے کو نہ چاہے گا۔یعنی بقول شاعر۔آمیں بتاؤں تجھ کو تدبیر رہائی مجھ سے پوچھ،،،لے کے رشوت پھنس گیا ‘ دے کے رشوت چھوٹ جا۔

 ہر حکمران دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے پاکستان کے اثاثوں کو داؤ پر لگانے میں مصروف ہے، ہر حاکم کی خواہش ہے کہ اپنے پیشرو کو پیچھے چھوڑے لیکن اس کیلئے پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں ڈبویا جارہا ہے۔

ملک میں گزشتہ 10 سالوں میں بننے والے منصوبے کسی اور ملک میں اسی معاشی حال کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا تو20 سے 25 سال کا وقت لگتا لیکن ہمارے حکمرانون نے چین کی خوشنودی کیلئے معیشت پر غیر ضروری بوجھ ڈال کر سی پیک سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن سی پیک سے تاحال کوئی فائدہ تو نہیں ہوا الٹا معیشت تباہ ہوچکی ہے۔

Related Posts