مسائل کے حل کیلئے حب الوطنی کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں ہر گناہ کا ذمہ دار ہم حکومت کو ٹھہراتے ہیں، چاہے وہ مہنگائی ہو یا بلیک مارکیٹنگ ہو یا سرمایہ کاری کی مشکلات ہوں۔مگر کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ پاکستانی ہونے کے ناطے ہماری اپنی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ہماری قوم نے عادت بنالی ہے کہ ہرچیز کا الزام دوسرے پر لگادیا جائے ۔

اگر بچہ خراب ہوتا ہے تو ہم بچے کے دوستوں اور اسکول کو مورد الزام ٹھہرادیتے ہیں اور ماں باپ اپنی کوتاہی کو قبول نہیں کرتے بلکہ اپنی اولاد کی ہربرائی پر کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔یہی عالم پورے معاشرے کا ہے، آپ جس شعبہ میں دیکھیں گے ، مہنگائی اور کارکردگی بدسے بد تر ہوتی جارہی ہے، مگر مہنگائی یا اپنی کارکردگی کے اوپر دھیان کوئی نہیں دیتا ۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ جتنی بھی ایسوسی ایشنز کاروباری حضرات بناتے ہیں وہ حکومت سے ڈو مور کا تقاضہ کرتی ہیں اور اپنی ہر ناکامیابی کی وجہ حکومت کو ٹھہراتی ہیں۔پاکستان میں ترقی اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے ملک کو اپنا سمجھنے لگیں اور اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اپنے اداروں میں کارکردگی کو بہتر بنائیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذہبی طور پر بھی ہم برائی کو برا تومانتے ہیں مگر جب خود کوئی برائی کرتے ہیں تو اس کیلئے کوئی نہ کوئی جواز گھڑ لیتے ہیں۔آج کل کے دور میں جبکہ معاشی حالت ہر ایک کی بہت ہی خستہ ہے ، ہم امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ہمیں کوئی الہ دین کا چراغ مل جائے گا یا حکومت کوئی جادو کی چھڑی چلا کر مہنگائی ختم کردیگی۔

مہنگائی کی وجہ ہم سب ہیں۔ ہم اپنے اپنے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ منافع رکھتے ہیں اور مہنگائی کا رونا روتے ہوئے بے رحمی سے منافع خوری کررہے ہوتے ہیں۔آپ جس ادارے کو اٹھا کر دیکھ لیں وہ اپنے منافع کے اندر تھوڑی سی بھی کمی نہیں کرتا جبکہ ہمارے دین میں ہے کہ ہرکاروبار میں منافع نمک کے موافق رکھیں تاکہ معاشرے سے غربت کم ہوسکے۔

پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو آج جتنے بھی صنعتکار ہیں ان کی جائیدادووں پر جائیداد بن رہی ہے مگر جب ملازمین کی تنخواہ بڑھانے کی بات آتی ہے تو حکومت پر ملبہ ڈال دیتے ہیں کہ حکومت ٹیکس بڑھارہی ہے اور ہمارا کاروبار خسارے میں جارہا ہے۔پچھلے دس سال میں 10 فیصد بھی کارخانے بند نہیں ہوئے۔مگر نقصان کا رونا ہر کاروبار کرنے والے مالکان روتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا نقصان حقیقت میں ہے یا یہ مصنوعی رونا ہے کیونکہ کوئی بھی انسان دس سال تک کاروبار میں گھاٹا برداشت نہیں کرسکتا اور بالآخر کاروبار بند کردیتا ہے۔

پاکستان میں جتنی بھی گاڑیوں کی صنعتیں  ہیں، گزشتہ 10سال میں ساڑھے 3سو فیصد تک ترقی کرچکی ہیں۔ادویات ساز کمپنیاں ساڑھے 4سوفیصد ترقی کرچکی ہیں ، ٹیکسٹائل انڈسٹری 275 فیصد، سیمنٹ انڈسٹری750فیصد، آئی ٹی سیکٹر 450 فیصدترقی کرچکا ہے ۔ یہ محض چند اعداد ہیں، اسی طرح ایک طویل فہرست ہے جو مختلف شعبہ جات کی ترقی کی داستان بیان کرتی ہے۔اس ترقی کے پیچھے صرف اور صرف منافع خوروں کی خود غرضی ہے جو پورے معاشرے کو کھاچکی ہے اور معاشرے میں انہی لوگوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔

حکومتی سطح پر تو عوام ہمیشہ دباؤ ڈالتے ہیں لیکن جب حکومت ان کاروباری حضرات پر ہاتھ ڈالتی ہے تو یہ مافیا کی طرح حکومت کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے 70 سال سے جس حکومت نے بھی اس مافیا کیخلاف کام کرنے کی کوشش کی تو یہ حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں کہ اگر آپ ہم پر دباؤ ڈالیں گے تو ہم کارخانے بند کردینگے اور لوگ بیروزگار ہوجائینگے ۔اس ملک میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کیونکہ الیکشن میں مقابلہ کرنے کیلئے بے تحاشہ پیسے درکار ہوتے ہیں ۔تاجر حضرات گزشتہ 70 سالوں سے سیاستدانوں کو پیسے فراہم کرتے ہیں اور بعد میں اپنے مفادات کے مطابق قانون بنواتے ہیں۔

ہمیں اپنے ایمان کو بہتر کرنا ہوگا، اللہ کے بتائے ہوئے راستہ کے مطابق منافع کو کھانے میں نمک کی طرح کم رکھنا ہوگا اور دوسرے لوگوں کا سوچ کر حب الوطنی سے کام کرنا ہوگا،  تب ہی مہنگائی کم ہوگی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

Related Posts