نواز شریف اور بھارتی میڈیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ کاروں اور عالمی تعلقات کے ماہرین نے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امیدیں لگا لی ہیں۔

نواز شریف دورِ حکومت میں متعدد کارہائے نمایاں سرانجام دئیے گئے جن میں سے ایٹمی دھماکے بھی ایک اہم کارنامہ سمجھا جاتا ہے تاہم یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ شریف برادران پر بھارت کیلئے نرم گوشہ رکھنے کا الزام ہمیشہ سے عائد کیا جاتا رہا ہے۔

ایسے میں نواز شریف جو حال ہی میں وطن واپس لوٹ کر اور مینارِ پاکستان پر جلسے سے خطاب کرکے ملک بھر کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں، بھارتی میڈیا کی توجہ کا بھی مرکز بنے۔ بھارتی نیوز اینکر پلکی شرما کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نواز شریف امن کی بات کر رہے ہیں۔

بلاشبہ کسی بھی نیوز اینکر کیلئے جو پاکستان سے تعلق نہ رکھتا ہو، کسی بھی سیاسی شخصیت کا نام پکارنے سے قبل یہ کہنا کہ وہ پاکستان میں فلاں بات کر رہے ہیں، کوئی اچنبھے کی بات نہیں تاہم بھارتی نیوز اینکر کا یہ کہنا کسی حد تک معنی خیز بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

معنی خیزی یہ ہے کہ بھارت ہمیشہ سے پاکستان پر مقبوضہ کشمیر، جسے وہ اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور خود بھارت میں بھی در اندازی اور دہشت گردی جیسے الزامات عائد کرتا رہا ہے اور بھارت کی پوری کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیا جائے۔

اس تمام تر منظر نامے میں بھارتی نیوز اینکر نے کہا کہ نواز شریف امن کی نہ صرف بات کر رہے ہیں بلکہ ان کی انتخابی مہم میں بھی یہ نکتہ کارفرما ہے۔ نواز شریف اکتوبر میں پاکستان لوٹے تھے، انہیں (پلکی شرما کے بقول) پاک فوج کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

بھارتی اینکر پلکی شرما نے کہا کہ نواز شریف کے سیاسی رقیب عمران خان اس وقت جیل میں ہیں تو یہ تمام تر منظر نامہ بیان کرتا ہے کہ پاکستان میں جو الیکشن ہونے والے ہیں وہ اسٹیٹ مینجڈ ہوں گے (یعنی اسٹیبلشمنٹ کا اس میں ”قابلِ ذکر“ کردار ہوگا)۔

پلکی شرما نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ نواز شریف بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات کی بات کیوں کررہے ہیں کیونکہ پاکستان میں انتخابی مہم میں یہ حربہ کام نہیں کرتا۔ پھر نواز شریف کو گفتگو کرتے دکھایا گیا جو پاک بھارت تعلقات اور بھارتی وزرائے اعظم کے دوروں کا ذکر کرتے ہیں۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں بھارت کے دو وزرائے اعظم پاکستان تشریف لائے یعنی مودی صاحب اور واجپائی صاحب نے اسلام آباد کا دورہ کیا، اس سے پہلے کوئی کب آیا تھا؟ ہم نے اپنے معاملات کو بھارت اور افغانستان سمیت سب سے ٹھیک کرنا ہے۔

آگے چل کر کارگل کی جنگ کا ذکر آتا ہے اور دیگر معاملات پر بھی گفتگو ہوتی ہے، تاہم یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کو بھارتی میڈیا کس نظر سے دیکھ رہا ہے۔ یہاں بعض سیاست دانوں کا بیانیہ یہ ہے کہ نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم ضرور بنیں گے۔

دوسری جانب بعض فرماتے ہیں کہ نواز شریف ہی کیا، کوئی بھی وزیراعظم بن سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو حقیقت سرحد پار بیٹھے بھارتی اینکرز کو نظر آرہی ہے، وہ ایسے ”بعض“ سیاست دانوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟ یا پھر وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟

آخر میں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم نہ بنیں، لیکن ایک شخص کی خودساختہ جلاوطنی ختم کراتے ہوئے پہلے تو اسے تزک و احتشام کے ساتھ وطن واپس لایا گیا اور پھر بریت کا فیصلہ بھی سنایا گیا۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی حقیقت تو ضرور ہے۔

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گھر کھلا

Related Posts