بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کاشور

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سندھ کے 14 اضلاع بشمول سکھر، لاڑکانہ، شہید بے نظیر آباد اور میر پور خاص ڈویژن میں 26 جون کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جن میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات سامنے آئے۔

اپوزیشن رہنماؤں بالخصوص پی ٹی آئی رہنما و سابق وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے رہنما و سابق میئر کراچی وسیم اختر نے نہ صرف سندھ کی حکمراں سیاسی جماعت پیپلز پارٹی پر کڑی تنقید کی بلکہ الیکشن کمیشن سے مبینہ دھاندلی کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔

دوسری جانب وزیرِ اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں مخالفین کو عبرتناک شکست دی گئی۔ پی پی پی نے چاروں ٹاؤنز اور ڈسٹرکٹ کونسلز میں تاریخی فتح کا حصول ممکن بنایا۔ لاڑکانہ میئر اور ڈسٹرکٹ کونسل چیئرمین پی پی پی کا ہوگا۔

بلاشبہ 27 جون کو سامنے آنے والے بلدیاتی انتخابات کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے فتح سمیٹی اور پی ٹی آئی، جی ڈی اے اور دیگر جماعتوں کا صفایا ہوگیا تاہم اپوزیشن رہنماؤں کے الزامات انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہیں۔

مستقبل قریب یعنی 24جولائی کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ کراچی اور حیدر آباد ڈویژن کے 16 اضلاع میں ہونا ہے جس میں سندھ کی 143ٹاؤن کمیٹیاں، 14 ضلعی کونسلز، 1 میٹروپولیٹن کارپوریشن  اور 45 ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشنز شامل ہیں۔

قبل ازیں سندھ ہائیکورٹ نے ایم کیو ایم، جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی کی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ 4روز قبل سامنے آیا۔

ایم کیو ایم (پاکستان) کے وکیل اور سابق وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کا عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا جواب ٹھوس نہیں ہے، 12اگست تک حتمی انتخابی فہرستیں آئیں گی۔ انتخابات شروع نہیں کیے جانے چاہئیں۔

عدالت میں الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ غیر حتمی فہرستیں انتخابات 2023 کیلئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کیلئے 27 ہزار امیدوار میدان میں ہیں۔ 50کروڑ خرچ کرچکے۔ صرف 2 فیصد حلقوں سے اعتراضات آئے۔

بلدیاتی انتخابات سے قبل ریجنل الیکشن کمشنر نے مجاز اتھارٹی کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا کہ ماضی میں دھاندلی کی شکایات وصول ہوچکی ہیں اور سیاسی کارکنان میں تصادم کا خدشہ ہے، سکیورٹی کیلئے پاک فوج اور رینجرز کو تعینات کیا جائے۔

حیرت انگیز طور پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوران 2 ہزار 980 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود انتخابات کے دوران فائرنگ، تصادم، ہاتھا پائی اور قتل و غارت کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

وطنِ عزیز کے قیام کو اگست میں 75سال مکمل ہوجائیں گے۔ آج تک پاکستان میں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد معمہ ثابت ہوا ہے جبکہ آزادئ اظہارِ رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہوا کرتا ہے۔ حکومتِ وقت کو انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کیلئے ہر صورت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ 

Related Posts