انا سے بچنے کی ضرورت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دینِ اسلام مسلمانوں کو صرف رمضان کے مقدس مہینے میں ہی نہیں بلکہ سال کے ہر دن اچھے کردار اور اخلاق کا درس دیتا ہے جس کا ایک پہلو معذرت کرنا ہے اگرچہ ہم غلطی پر نہ ہوں تاکہ آگے بڑھا جاسکے جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی انا کو پسِ پشت ڈال دیا جائے۔

ہم سب ابلیس کے قصے سے واقف ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ابلیس دراصل انا سے بھرا ہوا تھا کیونکہ اس کا عقیدہ یہ کہتا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے برتر مخلوق ہے۔ 

اس لیے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے اور اندازہ لگانا چاہیے کہ کیا ہم بھی شیطان کی طرح کہیں اپنی ہی ذات کے خول میں قید تو نہیں؟ اس حد تک کہ شیطان یا ہماری خواہشات ہماری شخصیت سے کھیل سکتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اعتماد اور تکبر کے درمیان ایک باریک فرق ہے اور بعض اوقات ہم اس فرق کو عبور کر جاتے ہیں۔ 

رمضان المبارک کے دوران شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ)

رمضان المبارک میں شیطان کا اثر کم ہو جاتا ہے، لیکن کیا ہمیں اس سے یہ اجازت مل جاتی ہے کہ ہم اس مہینےسے ہٹ کر اپنا عمل معمول کے مطابق رکھیں یا پھر رمضان انسان کو اپنے روئیے اور تعلقات کو بہتر بنانے کی دعوت دیتا ہے؟ 

نبئ مکرم ﷺ ہمیں اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ میل جول کی اہمیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگوں کے اعمال پیر اور جمعرات کو اللہ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، اور پھر ہر بندے کو (چھوٹے گناہوں کی) بخشش دی جاتی ہے۔ اگر وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو۔ لیکن جس شخص کے دل میں اپنے بھائی کے خلاف کینہ ہو اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔

دو لڑنے والوں کے متعلق فرمایا گیا کہ ان دونوں کو پکڑو یہاں تک کہ ان میں صلح ہو جائے۔ (ریاض الصالحین 1593)۔ کتنے پیر اور جمعرات ایسے گزرے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جن سے ہمیں بغض ہے یا ہم سے بغض رکھتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے کچھ نہیں کرتے۔

ہم ممکنہ طور پر ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ کہنا نہ پڑے کہ مجھے افسوس ہے۔ ہم اس حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتے کہ اسلام ہم میں سے کسی سے بڑا ہے یا یہ کہ اگر مصالحت نہ ہوئی تو یہ دشمنی ہماری آنے والی نسلوں کے ساتھ جاری رہ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی انا کو چھوڑنے کے بہت سے مواقع دیتا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ انتظار کرتے ہیں جب تک کہ بہت دیر نہ ہوجائے اور جب تک کہ ہم بستر مرگ پر نہ پہنچ جائیں۔

بہتر یہی ہے کہ اپنی انا کو ترک کیا جائے تاکہ ایمان کو مضبوطی سے پکڑا جاسکے۔  کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو ہم نہ صرف خود کو بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔

ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کو ایک طرف کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتے ہیں، کیونکہ ہم کسی دوسرے شخص سے دشمنی میں زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے ایسا نہیں چاہتا۔ بلکہ اللہ ہمارے درمیان محبت اور رواداری چاہتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل حدیث میں اس تصور کو تقویت بخشی کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ علیحدگی اختیار کرے، جب وہ ملیں تو ایک ایک طرف رخ کرے اور دوسرا دوسری طرف اور دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سب سے پہلے سلام کرے۔ (صحیح مسلم، کتاب 32، نمبر 6210)

یہاں ہماری رہنمائی کی گئی کہ جس سے دشمنی ہو، اسے سلام کرتے ہوئے بہتر انسان بننے کی کوشش کریں۔ قرآنِ پاک اہلِ جنت کے بارے میں بتاتا ہے کہ ان کے دلوں میں جو بھی کڑواہٹ تھی، ہم اسے دور کردیں گے اور وہ دوستانہ انداز میں ایک دوسرے کے سامنے تخت پر ہوں گے۔ (سورۂ الحجرات، آیت نمبر 47) ۔۔

سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 43 میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں جو بھی کڑواہٹ تھی، ہم اسے دور کردیں گے۔ ان کے قدموں تلے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہماری رہنمائی کی۔ اگر وہ ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت پانے والے نہیں تھے۔ یقیناً رسول اللہ ﷺ ہمارے حق لے کر آئے تھے۔ ان سے کہا جائے گا کہ یہ جنت ہے جو تم کو ان اعمال کے بدلے دی گئی ہے جو تم کرتے تھے۔

یہ آیت ہمیں  اس بات کی وضاحت دے رہی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رہنمائی کے بغیر اور اپنی خواہشات اور انا پر عمل کرتے ہوئے ہم تباہی کے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ اس اہم سبق سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں اپنی انا کو چھوڑنا ہوگا۔

ہمیں ان لوگوں تک پہنچنے کیلئے گہرائی میں جانا چاہئے جن سے ہماری دشمنی ہے اور اپنے آپ کو اللہ کے سامنے عاجز کرنا چاہئے۔ نیز ہمیں رمضان کے مقدس مہینے سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ ہم اپنی انا کو چھوڑ کر اپنے اجنبی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ایمان سے 

ہمیں رمضان کے مقدس مہینے سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ ہم اپنی انا کو چھوڑ کر اپنے اجنبی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ایمان کے ساتھ مل جل کر رہ سکیں۔ 

Related Posts