کراچی کی بربادی کی داستان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک بار پھر کراچی کا درجہ حرارت نقطہ عروج پر پہنچا دیا ہے، کراچی میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات گرانے کے احکامات کے بعد مکین اور انتظامیہ دونوں پریشان ہیں ،چیف جسٹس گلزار احمد نے اس سے پہلے بھی سندھ حکومت کو کئی بار سخت سست کہا اور تجاوزات و دیگر مسائل پر بات کی لیکن انجام وہی ڈھاک کے تین پات۔چیف جسٹس آتے ہیں اور کراچی کی حالت زار پر انتظامیہ کی سرزنش کرکے چلے جاتے ہیں۔

کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہے اور ابھی حال ہی میں عالمی جریدے اکانومسٹ نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو دنیا کے 10 بدترین شہروں میں شامل کر لیا ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے سندھ میں حکومت کرنیوالی پیپلزپارٹی کیلئے شرم کا مقام ہے۔

کراچی کو پاکستان کا معاشی حب سمجھا جاتا ہے اور یہاں ہر رنگ و نسل کے لوگ پائے جاتے ہیں،ہندوستان کے بٹوارے کے بعد مہاجرین نے اس شہرکارُخ کیاتواس نے دیدہ ودل فرش راہ کردیے پورے ملک سے لوگ روزگارکے لیے اس شہر آنے لگے تو اس مزدور پرور شہر نے سب کو سایہ عافیت مہیا کیا، بعدمیں آنے والے باشندے بھی اس دھرتی کے کلچر میں ضم ہوتے چلے گئے، اور شہر پھیلاتا چلا گیا۔

آج عروس البلاد کراچی کی آبادی کا تخمینہ اندازاً 3 کروڑ کے لگ بھگ لگایا جاتا ہے، آبادی کے ساتھ ساتھ اس شہر کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں، کراچی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ایک ایسا خواب ہے جو ہر آنیوالی حکومت عوام کی آنکھوں میں سجاتی تو ہے لیکن پورا نہیں کرتی۔نکاسی آب کا نظام بھی ایسا شاندار ہے کہ گزشتہ سال کی بارش نے پورے شہر کو جل تھل کردیا تھا، کراچی میں امن و امان کی صورتحال ماضی کی نسبت کافی بہتر ہے لیکن جرائم کی شرح اب بھی قابل تشویش ہے۔

کراچی میں غیر قانونی تعمیرات بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن قابل تشویش بات یہ ہے کہ انفرادی فعل نہیں ہے بلکہ کہیں بھی قبضے یا غیر قانونی تعمیرات میں سرکاری افسران ، پولیس اور تمام متعلقہ ادارے ملوث ہیں۔  گزشتہ سال بارش کے بعد کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کیخلاف آپریشن کی صدائیں بلند ہوئیں اور یہ آپریشن تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔

تجاوزات و غیر قانونی تعمیرات جہاں بھی ہوں جیسی بھی ہوں ان کو ختم کرنا ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بنیں کیسے، کراچی میں حال یہ ہے کہ آپ اگر نالی پکی کرنے کیلئے دو بوری سیمنٹ یا ایک سوزوکی بجری لے آئیں تو پولیس اہلکار پہنچ جاتے ہیں اور اپنا حصہ وصول کئے بنا ٹلتے ہیں جبکہ متعلقہ اہلکاروں کے اہلکار بھی گشت پر مامور رہتے ہیں۔

کراچی میں نالوں پر تعمیرات کیسے بنیں اس حوالے سے رپورٹس موجود ہیں لیکن آج تک نالوں پر تعمیرات کی اجازت دینے والوں سے جواب طلبی ہوئی نہ کسی کو سزاء ہوئی۔اپنے صحافتی کیریئر میں مجھے ایک جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ ” سائیں ہم ننگے پاؤں آئے تھے اور آج آپ کے سامنے ہیں”،کسی بھی بلڈر یا سرکاری افسر سے پوچھیں وہ تقریباً یہی جملہ دہرائے گا، یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی ایسی “ترقی” دیکھ کر اکثر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ سرکاری نوکری میں آخر کتنا کمالیتے ہیں کہ ننگے پاؤں سے سیدھا اربوں روپے کی جائیدادیں بن جاتی ہیں ۔پاکستان میں سرکار دفاتر کا عالم یہ ہے کہ یہاں کام نہ کرنے کی تنخواہ لی جاتی ہے اور کام کرنے کیلئے رشوت لی جاتی ہے۔

سندھ ہو یا وفاق ہر حکومت کراچی کے شہریوں کو ہمیشہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاکر رکھتی ہیں اور ہر سال بجٹ میں اربوں روپے رکھنے کے باوجود کچرا، پانی کی فراہمی ونکاسی، ٹرانسپورٹ، انفرااسٹرکچرجیسے بنیادی مسائل بھی حل طلب ہیں۔

کراچی میں تجاوزات و غیر قانونی تعمیرات گرانا احسن اقدام ہے لیکن ان غریبوں نے جنہوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگادی ہے وہ کہاں جائیں؟،جن لوگوں نے تعمیراتی کی اجازت دی انہیں پکڑا جائے، پہلے متاثرین کیلئے متبادل کا انتظام کیا جائے اور غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں۔

چیف جسٹس صاحب ! آپ نے کراچی کا درد محسوس کیا یہ آپ کی نوازش ہے لیکن بیمار کے ساتھ ساتھ بیماری کا بھی حل نکالیئے۔ ننگے پاؤ ں گاؤں دیہاتوں سے آکر کراچی کی قسمت لکھنے والے سرکاری افسران اور زمینوں کے کاروبار سے آج معزز بلڈرز کہلانے والوں کی دم اٹھائیں تو شائد اس بیماری کا اندازہ ہوجائے کیونکہ کراچی کی صورتحال پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ برباد گلستاں کرنے کو، صرف ایک ہی الّو کافی تھا، ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا۔

Related Posts