صالحین و کامریڈ بھائی بھائی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ حقیقت اب مکمل طور پر بے غبار ہوچکی کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں واضح طور پر دو الگ اور باہم مخالف سیاسی رخ اختیار کرچکی ہیں۔

لاڑکانہ کے بھٹوؤں والی پیپلز پارٹی پر نواب شاہ کے زرداریوں کی صورت کسی اور کا قبضہ مکمل ہوچکا۔ بھٹو باپ بیٹی تاریخ کا حصہ بن چکے اور زرداری باپ بیٹا پوری کامیابی کے ساتھ اس جماعت سے بھٹو ازم کھرچنے کے بعد اب اس کی قیادت عملاً اسٹیبلشمنٹ کو سونپ چکے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے زرداری کی حیثیت اب اس جماعت میں ناظم الامور کے سوا کچھ نہیں۔

زبانی جمع خرچ کی حد تک تو جماعت اسلامی کا بھی یہ دعویٰ چلا آرہا ہے کہ اس کےفیصلے اس کی مجلس شوریٰ کرتی ہے مگر کون نہیں جانتا کہ عملاً اس کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ؟ جماعت اسلامی میں بھی تو امیر نامی عہدیدار کی حیثیت فقط ایک ناظم الامور کی ہی رہ گئی ہے۔

سید منورحسن مرحوم کی حق مغفرت فرمائے، جیسے ہی انہوں نے خود کو “امیر” ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جماعت اسلامی کے صالحین نے ہی انہیں مکھن سے بال کی طرح باہر کیا کہ نہیں ؟ کیسے مان لیا جائے کہ کوئی مجلس شوریٰ یا ارکان کا گروہ بھی اپنی جماعت کے امیر کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کر سکتا ہے ؟ نہیں، ایسے ناروا سلوک کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ کٹھ پتلی شورائیں یا سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹیاں تو بس ان فیصلوں کو اپنے نام سے جاری کرنے کی تنخواہیں لیتی ہیں۔

لمحہ موجود میں اسٹیبلشمنٹ مبارکباد کی مستحق ہے کہ بالآخر وہ بائیں بازو کی سب سے اہم جماعت کے ساتھ بھی وہی کرنے میں کامیاب ہوگئی جو اس نے دائیں بازو کی جماعت اسلامی کے ساتھ جنرل ضیاء کے دور میں کر ڈالا تھا۔

کتنی مماثلت ہے ان دونوں جماعتوں میں۔ ایک وقت وہ تھا جب جماعت اسلامی کے پہلے امیر سید ابولاعلی مودودی کو ایک مارشل لاء کورٹ نے سزاء سنائی۔ پھر ایک وقت وہ آیا جب اسی جماعت کا اگلا امیر جنرل ضیاء کی خوشنودی کے لئے “آمیریت” کو قرن اول سے ثابت کرنے کی حد تک گرتا نظر آیا۔ بعینہ ایک دور وہ تھا جب پیپلز پارٹی کے پہلے چیئرمین کو سزائے موت صرف سنائی نہیں گئی بلکہ انہیں لٹکا بھی دیا گیا۔ اور اب ایک دور یہ بھی ہے کہ اس جماعت کی قیادت نے “باپ” کے باپ کو اپنا باپ تسلیم کرلیا۔

کہاں وہ ابوالاعلی مودودی جو سزائے موت سن کر بھی موقف پر قائم و دائم رہا اور کہاں یہ آج کے سراج الحق جن کا سرے سے کوئی اپناموقف ہی نہیں ہوتا۔ جب ریموٹ کنٹرول والوں نے سپریم کورٹ روانہ کرنے والا بٹن دبایا تو سپریم کورٹ کو چل دیئے اور جب یہ اشارہ ہوا کہ اب پیپلزپارٹی کے حوالے سے پرانا موقف چاٹ کر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا جائے تو چاٹ لیا اور جا کر ووٹ ڈال آئے۔ اگر یہ صالحیت ہے تو ایسی صالحیت سے بغاوت والا فسق و فجور بہتر۔

کہاں وہ ذوالفقار علی بھٹو جو سزائے موت کے پھندے پر لٹک گیا مگر اپنے منہ پر جنرل ضیاء سے “مفاہمت” کی کالک نہ ملی اور کہاں یہ نواب شاہ کا زرداری جو اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک گرنے کے لئے ہمہ وقت تیار۔ جس کے قول سے کسی طوائف کے پیر سے گرا گھونگرو زیادہ معتبر۔ اگر یہ “مفاہمت” ہے تو ایسی مفاہمت سے کسی رکھیل کا ایک رات کا حرفِ انکار بہتر۔

یہ ادراک ان دونوں جماعتوں کو بھی ہے کہ جو یہ کر رہی ہیں اسے شرمناک اور افسوسناک کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جرنیلوں کی کامل اطاعت کے باوجود بھی اپنا یہ چلن تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اگر خود انہیں اپنا یہ چلن درست لگتا تو یہ اس کا فخریہ اعتراف نہ کر تے ؟ سیاست کے کوچوں میں تو اظہار تفاخر ویسے بھی سب سے مستعمل روایت ہے۔

صالحین اور کامریڈ دونوں ہی اس چلن کے انتساب سے بدکتے کیوں ہیں ؟ جو کر رہے ہیں اسے مانتے ہوئے جان کیوں نکلتی ہے ؟ ترچھی ٹوپی والے سراج لالہ کی “کرو کج جبیں پہ سرِ کفن” والے مولانا مودودی سے کوئی حقیقی نسبت ہوتی تو ان کا چلن تضادات سے عبارت ہوتا ؟ اگر بمبینو سینما والے زرداری کی بھٹو سے ادنیٰ درجے کی بھی فکری ہم آہنگی ہوتی تو جس سنجرانی کے خلاف چند روز قبل الیکشن لڑا اسی سنجرانی کے آگے دست خیرات پھیلا کر یوسف رضیا گیلانی کو “سلیکٹڈ اپوزیشن لیڈر” بنواتے ؟ ایک فریب ہے جو صالحین و کامریڈ دونوں ہی دیئے جا رہے ہیں۔

امید کی روشن شمع یہ پیغام دیتی نظر آ رہی ہے کہ فیصلہ کن گھڑی سے قبل تقدیر کھرے اور کھوٹے کو جدا کرنے کا عمل شروع کرچکی۔ مفاہمت اور مزاحمت کے کیمپ اپنی حتمی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ منافق کا نفاق چھپائے نہیں چھپ رہا اور مردانِ حر کی آواز اب پنجاب سے نکل کر اس سندھ میں پھیلتی چلی جائے گی جہاں چار عشروں سے ہاری اور ناری دونوں کو مردہ بھٹو کے زندہ ہونے کا فریب دیا جاتا رہا ہے۔

اب زرداریوں کے لئے بھٹو کے نام کی چپاتی توڑنا زیادہ عرصہ ممکن نہ رہے گا، اب منصور اور منصورہ کا فرق بھی عیاں ہوکر رہے گا۔ اب یہ طے ہوکر رہے گا کہ اس ملک کو ایک بڑا سا ڈی ایچ اے بننا ہے یا آزاد شہریوں کا مادر وطن ؟۔

صالحین اور کامریڈ بھائی بھائی بن چکے تو کیا ہوا ؟ حتمی معرکہ تو ہوکر رہنا ہے۔ دیر سے انکار نہیں مگر اس کا برپا ہونا تو یقینی ہے۔

ٹالا جاسکتا توترکی کے جرنیل نہ ٹال لیتے ؟ کیا اس سچ کو جھٹلایا جاسکتا ہے کہ جرنیلوں کے نرغے سے آزاد ہوکر ترکی آئی ایم ایف اور اس کے قرضوں کے بوجھ سے بھی آزاد ہوگیا ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ جب سے ترک فوج کو بیرکس میں دھکیلا گیا ہے، ترک عوام کی خوشحالی کا سفر شروع ہوگیا ہے ؟ جو ترکی میں سچ ہے، وہ پاکستان میں جھوٹ کیسے ہوسکتا ہے ؟۔

Related Posts