اسرائیل کی کھلی بدمعاشی، فلسطینی وزیر خارجہ کے باہر جانے پر پابندی لگا دی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسرائیل نے فلسطینی وزیرخارجہ کا سفری اجازت نامہ منسوخ کردیا ہے۔ یہ فلسطینیوں کے خلاف صہیونی حکام کے نئے تادیبی اقدامات کے سلسلے کا حصہ ہے۔ ان کا اعلان اسرائیل کی نئی سخت گیرحکومت نے چند روز قبل کیا تھا۔

فلسطینی وزیرخارجہ ریاض المالکی نے اتوار کوایک بیان میں کہا ہے کہ وہ برازیل کے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے بعد واپس آرہے تھے جب انھیں بتایا گیا کہ اسرائیل نے اعلیٰ فلسطینی عہدے داروں کے لیے سفری اجازت نامہ منسوخ کردیا ہے۔ اس کے تحت وہ عام فلسطینیوں کے برعکس مقبوضہ مغربی کنارے میں آسانی سے سفر کرسکتے ہیں۔

اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کو سزا دینے کے اقدامات کی منظوری دی تھی۔ اس نے یہ فیصلہ فلسطینیوں کے اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے سے رجوع کے ردعمل میں کیا ہے۔اس میں عالمی ادارے پرزور دیا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی قبضے پراپنی رائے دے۔یہ فیصلہ اس سخت مؤقف کو اجاگرکرتا ہے جو موجودہ حکومت پہلے ہی اپنی مدت کار میں فلسطینیوں کے خلاف اختیار کر رہی ہے۔یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور امن مذاکرات کا دور دورتک کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔

دریں اثناء مشرقی یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں اسرائیلی پولیس نے فلسطینی والدین کے اپنے بچوں کی تعلیم کے بارے میں ایک اجلاس کوزبردستی تتربترکردیااوریہ کہا ہے کہ اس کی فلسطینی اتھارٹی نے غیرقانونی طورپرمالی اعانت کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر ایتماربن غفیرکے کہنے پرکی گئی جو ایک الٹراقوم پرست ہیں اورعرب مخالف بیانات اور اسٹنٹس کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔وہ اب اسرائیلی پولیس کے نگران ہوتے ہیں۔

فلسطینیوں نے مالکی کے اجازت نامے کی منسوخی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کوبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر سزا ملنی چاہیے۔تصدیق کے لیے فوری طور پراسرائیلی حکام سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اتوار کے روز اپنی کابینہ کے اجلاس کو بتایا کہ ان کارروائیوں کا مقصد اقوام متحدہ میں ’’انتہائی اسرائیل مخالف‘‘اقدام کا توڑکرنا ہے۔

ان کی حکومت کی سکیورٹی کابینہ نے جمعہ کو فیصلہ کیا تھا کہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کے تین کروڑ 90 لاکھ ڈالرروک دے گا اور اس کے بجائے فلسطینی عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی خاندانوں کے معاوضے کے پروگرام میں یہ رقم منتقل کرے گا۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل اس آمدن میں مزیدکٹوتی کرے گا جو وہ عام طور پر نقد رقوم کی کمی کا شکارفلسطینی کو منتقل کرتا ہے۔یہ رقم گذشتہ سال اتھارٹی کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے اہل خانہ اور تنازع میں مارے گئے افراد کے لواحقین کو اداکردہ رقم کے برابر ہے۔ان میں اسرائیلیوں کے خلاف حملوں میں ملوث عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ فلسطینی قیادت ان ادائیگیوں کو ضروری سماجی فلاح و بہبود قرار دیتی ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کا یہ شہداء فنڈ تشدد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اسرائیل کے روکے ہوئے فنڈز سے فلسطینی اتھارٹی کی مالی مشکلات میں اضافہ ہونے کا خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

گرل فرینڈ کے ساتھ سکونت، کیا سعودیہ رونالڈو کیلئے اپنا قانون بدل رہا ہے؟

اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے فلسطینی حکام کو بھی براہ راست نشانہ بناتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ ان میں سے ان وی آئی پیز کو فوائد سے محروم کردیا جائے گا جو اسرائیل کے خلاف سیاسی اور قانونی جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔

ہفتے کے روز پولیس کی جانب سے یہ کارروائی بن غفیرکے عہدہ سنبھالنے کے چند روز بعد کی گئی ہے۔ پولیس نے الزام عاید کیا ہے کہ والدین کے اجلاس کو فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی گئی تھی اوراس میں فلسطینی اتھارٹی کے کارکنوں نے شرکت کی تھی،جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیلی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن پولیس نے اپنے دعوے کی تائید میں ثبوت فراہم کرنے سے انکارکردیا ہے۔

یروشلم میں اسٹوڈنٹس پیرنٹس کمیٹیزیونین کے سربراہ زیاد شاملی نے اس اجلاس میں فلسطینی کی شمولیت سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدس شہرکے اسکولوں میں اساتذہ کی کمی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے منعقد کیاجا رہا تھا۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے سنہ1967 کی مشرق اوسط کی جنگ میں مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور بعد میں اس شہر کوصہیونی ریاست میں ضم کرلیا تھا۔اس اقدام کوامریکا اور چند ایک ممالک کے سوا بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اسرائیل اس شہر کو اپنا غیرمنقسم اور ابدی دارالحکومت سمجھتا ہے جبکہ فلسطینی شہرکے مشرقی حصے کو اپنی متوقع ریاست کا دارالحکومت بناناچاہتے ہیں۔

شہرکی قریباً ایک تہائی آبادی فلسطینیوں پرمشتمل ہے۔انھیں طویل عرصے سے اسرائیلی حکام امتیازی سلوک کا نشانہ بنارہے ہیں،انھیں شہری حقوق کے معاملے میں نظراندازکیا جاتا ہےاورانھیں تعلیم ، رہائش اورشہری خدمات مہیّا نہیں کی جاتی ہیں۔

Related Posts