الیکشن کے بعد بھی عدم استحکام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

الیکشن جمہوریت کا ایک اہم عنصر ہے جس کی بنیاد پر قوم اپنا یہ فیصلہ سناتی ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کو قومی یا صوبائی اسمبلی تک لانا چاہتی ہے جو آگے چل کر سربراہِ مملکت کا انتخاب کرے۔

معاشی استحکام کسی بھی مملکت کیلئے ایک خواب کی سی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اس قسم کے استحکام کی باتیں تو ضرور کی جاتی ہیں تاہم کوئی بھی حکومت اسے حاصل نہیں کرپاتی۔

ضروری یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کے عمل کو جاری رکھا جائے جسے مختلف حیلے بہانوں سے پٹڑی سے ہٹا دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک سیاسی اور معاشی طور پر کمزوری کی جانب گامزن ہونے لگتا ہے۔

کسی بھی ملک کے سیاسی نظام کو تو ضرور تہ و بالا کیا جاسکتا ہے لیکن اسے جمہوریت سے الگ کرکے معاشی عدم استحکام کی جانب بھی لایا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے اور عوام کی اشیائے ضروریہ تک رسائی مشکل ہونے لگتی ہے۔

ایسے میں سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے استحکام کا سوچنا چاہئے، جیسا کہ حال ہی میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو کے دوران کہا کہ الیکشن کے بعد بھی استحکام نہیں آئے گا، اگر درست راستے کا تعین نہ کیا گیا۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ن لیگ اقتدار پر توجہ مرکوز کر رہی ہے اور میں اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتا۔ مسلم لیگ (ن) پسندیدہ اور نواز شریف لاڈلا کا تاثر انتخابات کو قبل از وقت متنازعہ بناتا جارہا ہے۔

گزشتہ روز پی ٹی آئی میں جو انٹراپارٹی انتخابات ہوئے، ان میں پارٹی سربراہی کا یکطرفہ فیصلہ کر لیا گیا جس پر انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم ترین عہدوں پر ایک امیدوار کے مقابلے میں دوسرا امیدوار سرے سے لایا ہی نہیں گیا، کجا یہ کہ دونوں جانب کے ووٹوں کی گنتی کی جاتی۔

انٹراپارٹی انتخابات پر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی جیسی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراضات کیے گئے جو ن لیگی رہنما مریم اورنگزیب اور پی پی پی لیڈر فیصل کریم کنڈی کے گزشتہ روز کے بیانات سے واضح ہوتے ہیں تاہم عمران خان اب پی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں رہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف کو خاموشی چھوڑ کر عوام کو اپنی سوچ کے متعلق بتانا ہوگا کہ چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم بننے پر وہ ملک و قوم کو کس سمت میں لے کر جانا چاہیں گے؟حکام الیکشن سے قبل راستے کا تعین یقینی بنائیں۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شاہد خاقان عباسی عملاً ن لیگ سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر راستے کا تعین نہ کیا گیا تو الیکشن کے بعد بھی استحکام نہیں آئے گا، انتخابات میں تاخیر کی گئی تو یہ عوامی مفادات کے خلاف ہوگا۔

اگر ن لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتیں ملک میں سیاسی استحکام چاہتی ہیں تو ضروری ہے کہ فاؤل پلے، دھاندلی اور متنازعہ قسم کی بیان بازی سے دور رہیں اور اگر الیکشن میں کامیاب ہونا ہے تو عوام کے سامنے اپنی پارٹی کا منشور اس کی کارکردگی رکھیں تاکہ انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوسکے۔

 

Related Posts