سنگین غداری کیس پر اہم سوال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سنگین غداری کیس پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے جس میں کسی سابق صدر، سابق آرمی چیف اور سابق چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کو سزائے موت سنائی گئی تاہم اس پر عملدرآمد کی نوبت کبھی نہیں آئی۔

منگل کو بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے 4رکنی بینچ کی صدارت کی جس میں جسٹس منصور شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔ بینچ نے پرویز مشرف کو سنائی گئی سزائے موت کے خلاف اپیل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

کیس کا پس منظر یہ ہے کہ 17دسمبر 2019 کے روز پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سنگین غداری کیس کے مقدمے میں قائم خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی۔ بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار دے دی۔

سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے وکیل سلمان صفدر نے سپریم کورٹ میں سزا کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اور مؤقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے میں آئینی تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ سابق صدر کو سزا غیر آئینی بنیادوں پر سنا دی گئی۔اپیل پر سماعت طویل عرصے تک نہیں ہوئی۔

تاہم رواں ماہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت شروع کردی جبکہ رواں برس فروری کے دوران ہی سابق صدر پرویز مشرف انتقال کر گئے تھے۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ سزائے موت کی کیا قانونی حیثیت ہوگی؟ کیا پرویز مشرف کے انتقال کے بعد ان کے خلاف کیس معقول بھی ہے؟

وکیل سلمان صفدر نے منگل کو کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ پرویز مشرف کی خواہش تھی کہ سپریم کورٹ ان کی اپیل کی سماعت کرے تاہم 4 سال تک سماعت نہ ہوئی اور پھر پرویز مشرف انتقال کر گئے۔ اب سابق صدر مشرف کے اہلِ خانہ مایوس ہوچکے ہیں۔ اپیلوں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ جو اب سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ہیں، نے ریمارکس دئیے کہ یہ فیصلہ مستقبل کی نسلوں پر اثرات مرتب کرے گا۔ اپیل کے نتیجے میں پرویز مشرف کی پنشن اور دیگر مراعات متاثر ہونے کے بھی امکانات ہیں، اس پر وکیل نے ورثاء سے رابطے کیلئے 7 روز کی مہلت مانگ لی۔

جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس کے مطابق پرویز مشرف کے انتقال کے بعد اپیل کی سماعت کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سے پنشن اور مراعات متاثر ہوسکتی ہیں جن سے ظاہر ہے کہ پرویز مشرف کے اہلِ خانہ مستفید یا محروم ہوسکتے ہیں جبکہ اسی جملے کا دوسرا حصہ بھی غور طلب ہے کہ یہ فیصلہ نسلوں پر اثرات مرتب کرے گا۔

پرویز مشرف سابق آرمی چیف تھے اور سابق صدر کی حیثیت سے انہوں نے ملک کی تاریخ کے اہم ترین فیصلے بھی کیے۔ اگر اپیل پر یکطرفہ طور پر یہ فیصلہ کردیا جائے کہ پرویز مشرف کو سنایا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ درست تھا تو ہمیں آئی ایس پی آر کا یہ بیان بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اس سے سرحد پر کھڑے فوجی کی دلآزاری ہوگی۔

وطن کی حفاظت پر مامور فوجیوں کیلئے تو پرویز مشرف آج بھی سابق آرمی چیف کی حیثیت سے قابلِ احترام ہیں۔ ایسے میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ صرف پرویز مشرف کے اہلِ خانہ کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پرویز مشرف نے جو سیاسی پارٹی قائم کی تھی، اس کے کارکنان بھی غالباً پرویز مشرف کیلئے ایسے ہی جذبات رکھتے ہوں، جیسا کہ ایک عام فوجی رکھتا ہے۔

تاہم عدلیہ کیلئے بڑا امتحان یہ طے کرنا ہے کہ کیا پرویز مشرف سابق آرمی چیف ہونے کی حیثیت سے آئین سے بالاتر تھے یا پھر خصوصی عدالت جس کی سربراہی سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کی، وہ آئین کے مطابق یا پھر اس کے خلاف بنائی گئی تھی۔ اگر وہ آئین مخالف عدالت تھی تو وہ کون سے بااثر ہاتھ تھے جو سابق آرمی چیف کو سزائے موت سنانا چاہتے تھے؟

Related Posts