توڑے گئے تعلقات بحال کرنے کی اہمیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

غلط فہمی چاہے کسی بھی نوعیت یا قسم کی ہو، اس سے باہمی تعلقات اور رشتوں پر اثر پڑ سکتا ہے، تاہم قرآن و سنت کی تعلیمات ہمیں ٹوٹے ہوئے تعلقات کو ٹھیک کرنے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو صلح کرنے میں مدد کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

لوگوں کے درمیان تعلقات کو ٹھیک یا درست کرنا ایک موقعے کے طور پر لیا جاسکتا ہے جو اللہ  تعالیٰ ہمیں برکت اور اخروی انعامات کمانے کیلئے صدقے کے طور پر فراہم کرتا ہے، لیکن ہم میں سے کتنے لوگ اس بات میں تعاون کرتے ہیں کہ لوگوں یا جماعتوں کو ایک ساتھ واپس لایا جا سکے؟ ممکنہ طور پر یہ گنے چنے لوگ ہی ہوتے ہیں جو ایسا کرتے ہیں۔

جنگ بدر کے بعد صحابہ کے درمیان جنگی مال غنیمت کی تقسیم کے حوالے سے گرما گرم جھگڑے اور بحث پھوٹ پڑی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان اور تقویٰ کے اعلٰی درجات کے باوجود مسلمانوں کے درمیان شدید بحث اور جھگڑے ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال نازل کی اور پہلی آیت میں فرمایا  کہ وہ (یعنی مسلمان) جنگ کے مال غنیمت کے بارے میں آپ سے سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ اس کی تقسیم کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کیا ہے۔ پس اللہ (کے احکامات) کا خیال رکھو، اپنے معاملات طے کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم سچے مومن ہو۔

ذرا تصور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت کو میدان بدر کے معاملات میں نازل کرتا ہے اور مسلمان ابھی تک مدینہ واپس نہیں آئے لیکن مسلمانوں کے دلوں میں جو شدید غم اور غصہ پیدا ہوا ہے،  اسے فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان معاملات درست کرنے کے لیے نکلے۔

سورۃ النساء کی آیت نمبر 114 میں ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہم بھلائی کے لیے حکمتِ عملی اختیار کریں اور لوگوں میں صلح کرائیں۔  یہ فرما کر کہ ان کی زیادہ تر خفیہ باتوں میں کوئی بھلائی نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جو صدقہ، رحم و کرم یا لوگوں کے درمیان صلح کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اور جو کوئی اللہ کی رضا کے لیے ایسا کرے گا ، ہم ان کو اجر عظیم سے نوازیں گے۔ عام طور پر ، چھپ چھپ کر ملنے والے کئی لوگ برائی کی سازش کرتے ہیں جو کبھی اچھی نہیں ہوتی لیکن یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے جب بحث کرنے والے دوستوں اور خاندان کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں اس آیت میں بتاتا ہے کہ جو بھی لوگوں میں صلح کرانے میں سہولت کار کے طور پر کام کرے گا وہ بڑا ثواب کمائے گا۔

نبئ آخر الزمان ﷺ نے مندرجہ ذیل حدیث میں لوگوں کے درمیان چیزوں کو جوڑنے کی اہمیت پر زور دیا  کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ روزے ، نماز اور صدقے کے درجہ سے بہتر کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کی۔ جی ہاں ، اللہ کے رسول ﷺ۔  آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے درمیان صلح کرانا جن کے مابین اختلاف ہو۔ (سنن ابوداؤد 4919)

مندرجہ بالا حدیث میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہمیں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ نماز ، روزہ اور صدقہ اچھے اعمال ہیں جن سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے لیکن دوسروں کو اکٹھا کرنے سے معاشرے کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح ہم نماز ، روزہ اور صدقہ کی ذاتی رسومات ادا کرنے کے بجائے لوگوں سے صلح کر کے زیادہ برکتیں اور انعامات حاصل کر سکتے ہیں۔

سنت سے ایک مثال اوپر والے نکتے کو واضح کرتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو جنگجو قبائل کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کعبہ گئے تھے جن کے مابین خونریزی ہوسکتی تھی۔ جب سرورِ کائنات ﷺ نے ان دونوں گروہوں میں صلح کرائی تو وہ مدینہ واپس چلے گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی امامت کر رہے تھے۔ ہر ایک نے نماز چھوڑ دی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک طرف ہٹ گئے تاکہ نماز کی امامت کریں حالانکہ آپ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز کی امامت جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ صلح کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کا کعبہ میں رہنا نماز کے لیے بروقت  مدینہ پہنچنے کی کوشش سے زیادہ اہم تھا۔

رسولِ عربی ﷺ کی بہت سی مثالیں ہیں جو صحابہ یا شوہر اور بیوی کے درمیان معاملات کو درست کرنے کا اشارہ دیتی ہیں۔ اسی طرح  لوگوں میں صلح کرنا قرآن و سنت کے مطابق بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ ہے  جسے سب سے بڑا صدقہ سمجھا جاتا ہے۔

جب مسلم دنیا کی بات آتی ہے تو ہم اس تصور کو انتہائی سطح تک بڑھا سکتے ہیں۔مثال کے طور پر جب مسلم ممالک کے درمیان کوئی تنازعہ یا جھگڑا ہوتا ہے تو دوسرے مسلم ممالک کو امت مسلمہ کے فائدے کے لیے جھگڑے یا تنازعے کو حل کرنے کے لیے ایماندار وکلاء کے طور پر شامل ہونا چاہیے۔ تاہم اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) اور انفرادی مسلم ممالک اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے جس کی وجہ سے بیرونی لوگوں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے اور وہ صورتحال مزید خراب کردیتے ہیں۔