دُعا کیسے کام کرتی ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہم سب کا یہ متفقہ ایمان ہے کہ جب ایک مسلمان اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے تو ہمارے مسائل فوری طور پر حل ہوجاتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شاید ہم سے راضی نہیں ہے، تاہم یہ حقیقت سے دور کی بات ہے۔

عموماً ہم دُعا کو طلب کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں۔ عربی میں طلب کا مطلب ہے کہنا یا مطالبہ کرنا جبکہ دعا کا مطلب بلانا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں، کبھی کبھار ہم اس سے کوئی چیز مانگ رہے ہوتے ہیں، دن کے اختتام پر یہ درخواستیں اللہ تعالیٰ سے ہماری عاجزی و انکساری کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں جس سے ہمارے مسائل حل ہوتے ہیں۔ دعا کی اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو گفتگو کا حصہ بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے مسائل حل کرے یا نہ کرے، وہ ایک الگ معاملہ ہے۔

یہاں ہمیں حضرت مریم علیہا السلام کی مثال اپنے سامنے رکھنا ہوگی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدۂ ماجدہ ہیں۔ وہ بے حد گھبرا گئیں جب انہیں فرشتے نے آگاہ کیا کہ وہ ایک بچے کی ماں بنیں گی جبکہ مریم علیہا السلام اسے بد ترین سزا سمجھتی تھیں۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ میں معاشرے کے سامنے بے عزت ہونے پر مرنے کو ترجیح دوں گی۔ پتہ یہ چلتا ہے کہ جو بچہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اِس غم کا سبب بنے، وہی حضرت مریم علیہا السلام کی عزت و تکریم کا باعث بھی قرار پائے۔ یہاں تک کہ آج ہزاروں برس گزر جانے کے باوجود ہم ان کی بے پناہ عزت اور احترام کرتے ہیں۔

حضرت مریم علیہا السلام ان چند افراد میں سے ایک تھیں جن کی پیدائش کا ذکر ہمیں قرآنِ کریم میں نظر آتا ہے۔ ان کی والدۂ ماجدہ اولادِ نرینہ کی توقع کررہی تھیں تاہم ان کے ہاں ایک بچی یعنی حضرت مریم علیہا السلام پیدا ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ یہ لڑکی کسی دوسرے لڑکے کی طرح نہیں بلکہ اسے ایک خاص نعمت عطا کی گئی ہے۔سورۂ الِ عمران کی آیت نمبر 36 کا مفہوم ہے کہ اے میرے خدا میں نے تو ایک بچی کو جنم دیاہے، اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے کسے جنم دیا اور اولادِ نرینہ بچی (کی پیدائش) کے مقابلے میں کوئی مشابہت قرار نہیں دی جاسکتی تھی۔ پھر میں نے ان کا نام مریم رکھ دیا۔

پھر ایک روز حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک وجیہہ مرد کے روپ میں حضرت مریم علیہا السلام کے پاس آتے ہیں اور یہ انکشاف کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتہ) ہیں اور انہیں ایک فرزند کی بشارت سنانے آئیں ہیں۔ مریم علیہا السلام سوال کرتی ہیں کہ میں کوئی بچہ کیسے پیدا کرسکتی ہوں جبکہ مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا؟ وہ پریشان ہوجاتی ہیں۔

بچے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد حضرت مریم علیہا السلام انہیں لے کر اپنے گاؤں لوٹ جاتی ہیں۔ گاؤں والے جو انہیں پہلے ایک روحانی شخصیت سمجھتے تھے، وہ ان کو موردِ الزام ٹھہرانے لگتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں حضرت مریم علیہا السلام کا بچہ معاذ اللہ ناجائز تھا۔

اگر ہم اس لمحے کی طرف واپس لوٹیں جب حضرت مریم علیہا السلام نے بچے کو جنم دیا تھا، ان کی امید یہ تھی کہ بچہ جنم دیتے ہی وہ خالقِ حقیقی سے جاملیں گی اور اللہ تعالیٰ انہیں اِس طریقے سے معاشرے کے ہاتھوں بے توقیر ہونے سے بچائے گا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں قرآنِ پاک میں کسی شخص کے موت کی تمنا کرنے کا ذکر کیا گیا۔ کبھی کبھار لوگ ایسے مسائل میں پھنس جاتے ہیں جہاں موت انہیں زندگی سے بہتر لگتی ہے۔

موت کی تمنا کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت مریم علیہا السلام یہ امید بھی کرتی ہیں کہ لوگ انہیں بھول جائیں گے اور کوئی انہیں مستقبل میں یاد بھی نہیں کرے گا۔

جو بھی مسائل حضرت مریم علیہا السلام کو برداشت کرے پڑے، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے باعث ہوئے،  اِس وجہ سے نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند تھیں یا وہ انہیں بے توقیر کرنا چاہتا تھا، اور آخر وقت پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بے مثال عزت بخشی۔ قرآنِ پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے عیسیٰ ابنِ مریم کے الفاظ بھی حضرت مریم علیہا السلام کی لازوال عزت و توقیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو کسی اور پیغمبر کیلئے استعمال نہیں ہوئے۔

عربوں میں یہ روایت عام رہی کہ وہ ہر شخص کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام ضرور لگاتے ہیں جس سے قبل ابن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام کے ساتھ ماں کا نام استعمال کیا گیا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کا کوئی باپ نہیں تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حضرت مریم علیہا السلام کی عزت و حرمت کو بے مثال بنانے کیلئے زبردست عطا ہے۔

کبھی  کبھی آپ کا درد دوسرے لوگوں کیلئے ایک نعمت بن جاتا ہے۔ یہ دردوغم حضرت مریم علیہا السلام کو عطا ہوا۔ ہر بار جب کوئی خاتون بے توقیر ہو یا اس پر غلط الزامات لگائے جائیں یا وہ موت کی تمنا کرنے لگے، اسے حضرت مریم علیہا السلام کی مثال اپنے سامنے رکھ کر ان سے حوصلہ حاصل کرنا ہوگا۔ یہ ہمت و حوصلہ بھی حضرت مریم علیہا السلام کے رتبے میں مزید عظمت کا ثبوت ثابت ہوگا۔

ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ سے رابطے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ یہ وہ ذریعہ نہیں ہوتیں جو ہماری دُنیا کو جنت بنا دیں۔ دنیا میں آزمائشیں اور جدوجہد ہماری زندگی کا حصہ ہوتی ہے۔ دعا کا مقصد ہماری جدوجہد میں اللہ تعالیٰ سے مدد کی درخواست ہے۔

اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کہ لوگ آپ کو بے توقیر کرنے کیلئے کتنی کوششیں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو عزت فرمائے، تو اس سے قابلِ تعریف بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ جو کچھ لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں، اس میں اور اللہ تعالیٰ کے آپ کی حقیقت کو سمجھنے میں ایک بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ لوگوں کے کہے میں آجائیں تو معاشرے میں حضرت مریم علیہا السلام کو بے توقیر کرنے کی بہت کوششیں ہوئیں، لیکن اگر آپ اللہ کے فرمان کے مطابق چلیں تو حضرت مریم علیہا السلام سے زیادہ کوئی قابلِ احترام خاتون تاریخِ انسانی میں بھی نظر نہیں آئے گی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے فرمان پر ایمان رکھنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جو ہمیں عزت و احترام کی نعمت سے نوازتا ہے۔ 

Related Posts