حکومتی ارکان کی مدد کے بغیر کیا اپوزیشن پنجاب اور وفاق میں حکومت گراسکتی ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

PM Imran Khan announces appointment of new Army Chief in November

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں ان دنوں سیاسی درجہ حرارت اپنے پورے عروج پر ہے، حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے حریف کو چت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔ حکومت کو جہاں اپوزیشن سے خطرات لاحق ہیں وہیں اپنے ناراض رہنماؤں کی وجہ سے بھی مشکلات درپیش ہے تاہم یہاں سوال یہ ہے کہ اگر حکومت اپنے ناراض ساتھیوں کو منالیتی ہے تو کیا اپوزیشن پھر بھی پنجاب اور وفاق میں حکومت گرانے میں کامیاب سکتی ہے۔

سیاسی کشیدگی
اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وفاقی حکومت کیخلاف لانگ مارچ کررہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد پہنچ کر حکومت کیخلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جائیگی ۔ اپوزیشن کادعویٰ ہے کہ حکومتی کے درجنوں ارکان کی حمایت انہیں حاصل ہے جس کی وجہ سے حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائیگی ۔

حکومت کی مشکلات
اپوزیشن کے احتجاج سے قطع نظر حکومت کو اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔گزشتہ روز پنجاب میں بااثر پی ٹی آئی رہنماء علیم خان نے جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کا اعلان کیا اس موقع پر علیم خان نے دعویٰ کیا کہ 40 کے قریب رہنماؤں کی حمایت ان کے ساتھ ہے جبکہ جہانگیر ترین گروپ اس سے پہلے ہی حکومت کیلئے مشکل کا سبب بنا ہوا ہے۔

پنجاب میں پارٹی پوزیشن
371 ارکان کی پنجاب اسمبلی میں حکومتی بنچوں پر نظر ڈالیں توپاکستان تحریک انصاف 184 نشستوں کے ساتھ اکثریتی جماعت ہے، مسلم لیگ ق کے 10، 4آزاد اور پاکستان راہِ حق پارٹی کے ایک رکن کی حمایت بھی حکومت کو حاصل ہے۔یعنی حکومت بنانے کیلئے درکار 186سیٹوں سے بھی زیادہ 195 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

اپوزیشن بنچوں پرپاکستان مسلم لیگ ن 165 اور پاکستان پیپلزپارٹی 7 سیٹوں پر موجود ہے۔اگر حکومت کے مقابلے میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ ق کے 10، 4آزاد اور پاکستان راہِ حق پارٹی کے ایک رکن کی حمایت اپوزیشن کے ساتھ ہوجائے تو یہ مجموعہ 187 بنتا ہے اور تحریک انصاف کے پاس 184 سیٹیں ہیں۔ یعنی اگر اپوزیشن جماعتیں ایک ہوجاتی ہیں تو پنجاب میں باآسانی حکومت بنائی جاسکتی ہے

وفاق میں حکومت اور اپوزیشن کا موازنہ
342 کے ایوان میں پاکستان تحریک انصاف 155 سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر موجود ہے اور حکومت بنانے کیلئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی 7، پاکستان مسلم لیگ ق کی 5، بی اے پی کی 5، جی ڈی اے کی 3، عوامی مسلم لیگ کی ایک، دوآزاد اور جمہوری وطن پارٹی کی ایک سیٹ کی حمایت بھی حاصل ہے یوں حاصل مجموعہ 176 بنتا جو حکومت بنانے کیلئے درکار 172 سے 4 ووٹ زیادہ ہے۔

اب اگر اپوزیشن بنچوں کا جائزہ لیں توپاکستان مسلم لیگ ن 84 سیٹوں کے ساتھ پہلے، پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس56 نشستیں ، متحدہ مجلس عمل 15،بی این پی ملی 4، عوامی نیشنل پارٹی ایک اور دو آزادارکان شامل ہیں اور اپوزیشن کا مجموعہ 162 بنتا ہے ۔

وفاق میں حکومت بنانے کیلئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہے اور اگر پہلے سے موجود 162 رکنی اپوزیشن کومتحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی 7، پاکستان مسلم لیگ ق کی 5، بی اے پی کی 5 سیٹوں سے حمایت مل جاتی ہے تو یہ تعداد 179 ہوجاتی ہے اور اگر ق لیگ کی 7 ، دو آزاد اور جمہوری وطن پارٹی بھی اپوزیشن کے ساتھ آجائے تو بھی حکومت بنانا ممکن ہے۔

سیاسی تبدیلی
پارلیمان کے اندر ووٹ کے ذریعے حکومت کی تبدیلی جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے اور اگر اپوزیشن اتحاد واقعی میں متحد ہوجاتا ہے تو حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہے جبکہ اگر حکومت اتحادیوں اور ساتھیوں کے تحفظات اور خدشات دور کردیتی ہے تو اپوزیشن کو ایوان میں تحریک عدم اعتماد اور ان ہاؤس تبدیلی کی کوشش میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

اگر تحریک اعتماد کامیاب ہوگئی تو اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟
اس بارے میں اپوزیشن میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ حزب اختلاف کے بعض رہنماؤں کے مطابق اس کا فیصلہ ’اگلے مرحلے‘ پر کیا جائے گا اور فی الحال تمام تر توجہ عدم اعتماد کے ووٹ پر ہے۔ البتہ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ وہ ’نئے وزیراعظم کی بجائے نئے انتخابات کرانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ عوام کو اس حکومت سے نجات مل سکے۔‘اس سوال پر کہ کیا ان کی جماعت کو بلاول بھٹو زرداری یا پیپلز پارٹی کے کسی اور رہنما بطور وزیراعظم قبول ہوں گے، انھوں نے کہا کہ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ نواز سے آئندہ وزیراعظم کے امیدوار صرف شہباز شریف ہوں گے۔

Related Posts