راول ڈیم میں نوجوان کی پراسرارہلاکت، ورثاء کا تحقیقات کا مطالبہ، پولیس کی ٹال مٹول

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Heirs demand investigation into death of youth who drowned in Rawal Dam

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: راول ڈیم میں دوستوں کے ساتھ نہاتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہونیوالے نوجوان کی موت معمہ بن گئی، ورثاء کا تحقیقات کا مطالبہ، پولیس کی ٹال مٹول، والدین نے اعلیٰ حکام سے انصاف کی اپیل کردی۔

پولیس تھانہ سیکریٹریٹ نے واقعہ کو اتفاقی حادثہ قرار دیدیا جبکہ ورثاء نے اپنے لخت جگر کی موت کو قتل قرار دیکر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو تحریری درخواست دیتے ہوئے قبر کشائی کرانے اور پوسٹ مارٹم کرا کر اصل حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کر دیا جس پر ڈی سی اسلام آباد نے ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

4 جون 2021ء کو ڈی سی آفس سے ایس ایس پی آفس کو لکھے گئے اس لیٹر کو دو ہفتے گزرنے کے باوجود پولیس نے تاحال اپنی رپورٹ مرتب کرکے نہیں بھجوائی۔ ورثاء نے وزیر داخلہ، آئی جی، ڈی سی اور ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

سنگھر ٹاؤن کھوکھر روڈ راولپنڈی کی رہائشی غزالہ پروین نامی خاتون نے پولیس حکام کو تحریری درخواست دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ 25 مئی 2021ء کو دن ساڑھے بارہ بجے میرا سترہ سالہ بیٹا نور الحسن اپنے بڑے بھائی سمیر اور محلے کے دوستوں طیب، ذوہیب عرف زیبی اور ندیم مسیح کے ہمراہ راول ڈیم میں نہانے گیا۔

شام ساڑھے چھ بجے میرے بڑے بیٹے سمیر نے اطلاع دی کہ نور الحسن کی موت واقع ہوگئی ہے جس کی اطلاع پر میں پمز ہسپتال آئی اور بیٹے کی لاش وصول کی اور بعدازاں تدفین کر دی ۔ میں اس وقت چونکہ شدید ذہنی کرب میں مبتلا تھی اس لئے فوری کوئی درخواست نہ دی۔ بعدازاں مجھے معلوم ہواکہ میرے بیٹے کو اس کے دوستوں نے پوری منصوبہ بندی سے قتل کیا ہے لہٰذا میرے بیٹے کی قبر کشائی کی جائے اور پوسٹ مارٹم کرکے اصل حقائق سامنے لایا جائے۔

مزید پڑھیں:قبضہ مافیا کے خوف نے گھر کے 6افراد کی زندگیاں چھین لیں، بیوہ خاتون کی انصاف کیلئے دہائیاں

ایم ایم نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خاتون غزالہ پروین کا کہنا تھاکہ میرا بیٹا نور الحسن بہت اچھا تیراک تھا، وہ یوں ڈوب ہی نہیں سکتا جس شہری نے اسے پانی سے نکالا اس کا کہنا تھاکہ نور الحسن کو ڈیم سے باہر نکالنے کے بعد اس کے منہ سے پانی نہیں نکلا اور نہ ہی پیٹ میں پانی جمع تھا۔

نور الحسن کی ناک سے کئی گھنٹے تک خون فوارے کی طرح بہتا رہا جسے بہت مشکل سے کنٹرول کیا گیا تاہم اس کے جسم پر زخم کے نشانات موجود نہ تھے۔ غمزدہ ماں کا مزید کہنا تھاکہ میرے بیٹے کی موت کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے۔

سیکریٹریٹ پولیس اس معاملے کی چھان بین کرنے کی بجائے بار بار ہمیں یہی کہہ کر ٹال دیتی ہے کہ بچہ اتفاقی طور پر ڈوب کر فوت ہوا ہے۔

Related Posts