جغرافیائی سیاست اور پاکستان کا کردار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دنیا میں  جغرافیائی سیاست کے حوالے سے ایک مقولہ ہے کہ اگر آپ اپنی زمین کا دفاع نہیں کرسکتے تو آپ اس کے مالک نہیں ہیں اور اس کی مثال کے طور پرامریکا اور آسٹریلیا کو دیکھا جاسکتا ہے اور دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے اسرائیل کا بھی یہی عالم ہے لیکن اسرائیل نے جس طرح فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کیا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا اس کی وجہ سے پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔

مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کی طرف سے اسرائیل کے وجود سے انکار کی وجہ سے کئی عرب ممالک کا یہ خیال تھا کہ پاکستان ان کا دفاع کریگا۔ جہاں تک متحدہ عرب امارات کا معاملہ ہے تو امارات گزشتہ 5 سے 6 سال سے اسرائیل کیخلاف تجارتی روابط قائم کئے ہوئے تھا اور چین جہاں اویغور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور بھارت جہاں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے، متحدہ عرب امارات ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے تھا اور متحدہ عرب امارات نے اپنے ذاتی مفادات کیلئے مسلم امہ کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہت عرصہ سے قائم ہیں لیکن اب محض اعلان کرکے رسم پوری کی گئی ہے تاہم امارات کے اس اقدام کے بعد پوری دنیااور پاکستانی قوم کی نگاہیں حکومت کی طرف لگی تھیں کہ حکومت پاکستان اس پیشرفت پر کیا ردعمل دیتا ہے۔

اسرائیل امارات تعلقات بحالی پر وفاقی حکومت سے موقف لینے کے بجائے پاکستان کے میڈیا نے امیر جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمان کو ہدف تنقید بنایالیا اور پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور صحافی حکومت سے سوال کرنے کے معاملے پر انگشت بدنداں تھے۔

مولانافضل الرحمان کا اسرائیل کے حوالے سے موقف روز روشن کی طرف عیاں ہے، امیر جمعیت علماء اسلام ہمیشہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے ہیں  اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں لیکن پاکستان میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر توپوں کا رخ مولانافضل الرحمان کی طرف موڑ دیا گیا ہے حالانکہ 15اگست کو باچا خان مرکز آمد پر بھی مولانافضل الرحمان نے دوٹوک موقف اختیار کیا کہ ہم کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے۔

پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کے خلاف بلا جواز تنقید کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور علماء کیلئے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کوئی باہر کیوں نہیں آیا لیکن وہیں میڈیا نے اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کی بحالی کیخلاف جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کے احتجاجی لانگ مارچ کو دانستہ نظر انداز کیا گیا جبکہ سراج الحق کے احتجاجی لانگ مارچ کو پوری دنیا کے میڈیا نے نمایاں کوریج دیتے ہوئے پاکستان اسٹینڈ ود فلسطین کی شہ سرخیاں لگائیں جس سے دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے ایک مثبت پیغام گیا۔

3 دن گزرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا اور آخر کار معروف اینکر کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ ہم کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے جس کے بعد عوام کو تسلی ہوئی ہے۔

اس تمام صورتحال میں میڈیا نے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا، میڈیا کو جس طرح عوام میں شعور اجاگر کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا، میڈیا کو سیاسی قیادت اور حکومت کا پیغام عوام تک پہنچانا تھا لیکن میڈیا نے بغیر تحقیق علماء کو تنقید کا نشانہ بنایاجس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ہم نے عمران ریاض خان معافی مانگو کا ٹرینڈ متعارف کروایا کیونکہ انہوں نے انتہائی بدتہذیبی کے ساتھ علماء کے حوالے سے غیر شائستگی کا مظاہرہ کیا تھا۔

حکومت کو امارات اسرائیل تعلقات بحالی پر فوری واضح موقف عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھا اور میڈیا کو حقائق قوم کے سامنے پیش کرنا تھے لیکن حکومت کی خاموشی کی وجہ سے میڈیا نے بے پرکی اڑانا شروع کی جس کی وجہ سے قوم میں مزید بے چینی پیدا ہوئی تاہم اگر حکومت شش و پنج سے نکل کر دوٹوک پالیسی اپنالے اور میڈیا اپنی غیر ذمہ داری کی روش ترک کردے تو قوم کو کئی مسائل سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔

Related Posts