وزارتِ تعلیم کا ایچ ای سی کیلئے محکمۂ خزانہ سے 104 ارب کے بجٹ کا مطالبہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزارتِ تعلیم کا ایچ ای سی کیلئے محکمۂ خزانہ سے 104 ارب کے بجٹ کا مطالبہ
وزارتِ تعلیم کا ایچ ای سی کیلئے محکمۂ خزانہ سے 104 ارب کے بجٹ کا مطالبہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: وفاقی وزارتِ تعلیم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کیلئے محکمۂ خزانہ سے 104 ارب کے بجٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو خط لکھ دیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق وزارتِ تعیلم کے جوائنٹ سیکرٹری راجا محمد اقبال نے وفاقی محکمۂ خزانہ کو خط لکھ کر درخواست کی کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کیلئے 30 ارب روپے کے بجٹ کا تخمینہ ملک بھر کی جامعات کیلئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس سے شدید ترین مالی بحران کا خدشہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

واپڈا کا جونیئر کلرک میر پور خاص بورڈ میں گریڈ 19 کا سیکرٹری بن گیا

وفاقی وزارتِ تعلیم اسلام آباد کی جانب سے محکمۂ خزانہ کو خط لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 22-2021 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جامعات کو 120 ارب کے مطالبے پر 66.250 ارب روپے فراہم کیے گئے جبکہ فنانس ڈویژن کی جانب سےمزید 15 ارب روپے کی ادائیگی مالی سال 22-2021 میں دینے کا اعلان کیا گیا جو نہیں دیئے گئے ۔ جس کے بعد صوبائی آئی بی سی کی جانب سے مالی سال 23-2022 کے بجٹ کیلئے 30 ارب کا تخمینہ دیا گیا جو انتہائی کم ہے۔

خط کے مندرجات کے مطابق ایچ ای سی ضرورت کے متعلق 17-2016 سے بجٹ جمود کا شکار ہے جبکہ قومی جی ڈی پی کی شرح کے مطابق ایچ ای سی کا بجٹ 0.14 کی انتہائی کم شرح پر آ گیا ہے ۔ جس کے موازنہ کیلئے درج ذیل اعداد و شمار دیکھے جا سکتے ہیں۔

اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کو 15-2014 میں ضرورت سے 26 فیصد کم، 16-2015 میں 15 فیصد، 17-2016 میں 11 فیصد، 18-2017 میں 12 فیصد، 19-2018 میں 21 فیصد،21-2020 میں 38 فیصد، 21-2020میں 37، 22-2021 میں 45 جبکہ سب سے بڑھ کر 23-2022 میں ضرورت سے 71.4فیصد کم بجٹ دیا گیا۔ 

مزید یہ کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کے مشاہدے میں سامنے آیا ہے کہ غیر معمولی طور پر نئی جامعات قائم نہیں کی جا سکیں جبکہ اس شعبہ میں گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے تنزلی سامنے آئی ہے۔

وفاقی وزارت تعلیم کے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا کہ کہ افراطِ زر کی وجہ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ملازمین مہنگائی، اخراجات میں اضافے کی وجہ سے شدید مالی پریشانی کا شکار ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے زیر انتظام اعلی تعلیمی ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن دینے سے قاصر ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ 30 ارب روپے کے بجٹ کا تخمیہ گزشتہ 5 برس کے تخمینہ سے بھی کم ہے جبکہ اس تخمینہ کے مطابق جاری کردہ بجٹ مزید تعلیمی و مالی بدحالی کا باعث بنے گا۔ ان تمام اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو 104.983 ارب روپے دیئے جائیں جبکہ 104 ارب روپے کے تخمینہ کے سامنے 30 ارب دینا انتہائی زیادتی ہو گی۔

24 APRHEC 3

ادھر سندھ یونیورسٹیز آفیسرز فیڈریشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہائرایجوکیشن کمیشن کے حالیہ نوٹیفکیشن برائے ہاؤس سیلنگ کی فوری بندش اور بجٹ میں 50 فیصد کمی قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ اگلے سالانہ بجٹ کو کم از کم 150 ارب تک بڑھایا جائے۔ حالیہ ایچ ای سی کے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں یہ بات آئی کہ ہاؤس سیلنگ وفاق کا معاملہ ہے تو صوبے کی جامعات کیوں دے رہی ہیں؟ وہ اسکی اہل نہیں۔ لہٰذا ہاؤس سیلنگ یا ہاؤس ریکوزیشن کو فوری صوبائی جامعات میں بند کیا جائے۔

اس حوالے سے سندھ یونیورسٹیز آفیسرز فیڈریشن کا مزید کہنا ہے کہ سندھ کی جتنی بھی جامعات ہیں انکی تنخواہوں کابجٹ سندھ حکومت دیتی ہے،  لہٰذا ایچ ای سی کی جانب سے ہاؤس سیلنگ یا ہاؤس ریکوزیشن کی بندش بلاجواز اور ملازمین پر مہنگائی کے دور میں مالی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔

اس حوالے سے سندھ یونیورسٹیز آفیسرز فیڈریشن کا کہنا ہے کہ ایچ ای سی کو اپنے اس نوٹیفیکیشن پر نظرثانی کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ میں کٹوتی واپس لی جائے اورخاطر خواہ اضافہ نہ ہوا تو سندھ یونیورسٹیز آفیسرز فیڈریشن سندھ بھر میں احتجاجی تحریک چلائے گی۔

واضح رہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن ( ایچ ای سی) نے محمکۂ خزانہ کے  ایچ ای سی کیلئے بجٹ تخمینے پر 50 فیصد کٹوتی کرنے کے بعد ملک بھر کی 120 سے زائد جامعات کے وائس چانسلرز کو اعتماد میں لیکر وفاقی وزارتِ تعلیم کو خط لکھا جس میں بجٹ میں کٹوتی کی بجائے اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ خود  ایچ ای سی نے جامعات کو ممکنہ طور پر کم بجٹ کے پیش نظر کفایت شعاری اپنانے کا مشورہ دیا ہے اور  حکم جاری کیا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں شامل ہاؤس سیلنگ  اور ہاؤس رینٹ فوری طور پر بند کر دیا جائے۔ ہاؤس رینٹ صوبائی چارٹر کے تحت آنے والی سرکاری جامعات کے تدریسی و غیر تدریسی ملازمین کی تنخواہ سے بند ہوگا جس کا باقاعدہ خط صوبائی چارٹر کی حامل سرکاری جامعات کو بھجوایا گیا ہے۔

ادھر اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے وفاقی وزارت تعلیم کو ایک مفصل خط لکھا گیا ہے جس میں کم بجٹ سے پیش آنے والے مسائل سے وفاقی وزارتِ تعلیم کو آگاہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سرکاری جامعات کے لیے اب تک دیا جانے والا 66.250 ارب روپے کا سالانہ بجٹ جامعات کی محض 28 فیصد ضروریات پوری کرتا ہے جبکہ جامعات 72 فیصد ضروریات اپنے وسائل اور صوبائی بجٹ سے پورا کرتی ہیں۔

Related Posts