ای ایف پی کا کراچی کے بجٹ کی آزادانہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

EFP Calls for Independent Investigation Under Judiciary Oversight of Budgets Spent on Development of Karachi

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی : ای ایف پی کے صدر اسماعیل ستارنے کہا ہے کہ کراچی میں پاور مارکیٹس، علاقائی ٹرانسمیشن آپریٹرز کی تشکیل کے مجوزہ منصوبوں کو تیز کیا جائے، برساتی نالوں پر تجاوزات،بجلی،گیس بندش سے لوگوں کے نقصانات کا تخمینہ عدالتی نگرانی میں لگایا جائے۔

ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان کے صدر اسماعیل ستار نے حالیہ موسلا دھار بارشوں کے بارے میں محکمہ موسمیات کی پیش گوئی اور وفاقی وزیر بحری امور علی کی طرف سے آگاہی دیے جانے کے باوجود کراچی کی میونسپل اتھارٹیز کی جانب سے مون سون بارشوں کے سلسلے میں انتظامات نہ کرنے اور باالخصوص کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی ناقص کارکردگی پر شدید تحفظات اور ناراضگی کا ا اظہار کرتے ہوئے کراچی کی ترقی پر خرچ ہونے والے فنڈزکی عدلیہ کی نگرانی میں آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اسماعیل ستار نے ایک بیان میں کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یوٹیلیٹی سروسز فراہم کرنے والے اداروں مثلاً کے الیکٹرک اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ساتھ ہم آہنگی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے جس نے براہ راست کراچی کے شہریوں کی جان سے بچانے کے لیے بروقت ردعمل کو متاثر کیا۔

ای ایف پی نے پاکستان کے مینوفیکچررز کی ایپکس باڈی ہونے کی حیثیت سے کے الیکٹرک کے بد انتظامی معاملات اور ناکارہ ٹرانسمیشن سسٹم پر افسوس کا اظہار کیا جسے بدقسمتی سے مون سون بارشوں کے دوران بجلی سے ہونے والے کسی بھی ممکنہ واقعات کو روکنے کے لیے بند کرنے کی ضرورت ہے۔

اس پر اسماعیل ستار نے واٹر پروف الیکٹرک سپلائی اسٹرکچر کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ گنجان آباد شہر کراچی میں پاور مارکیٹس اور علاقائی ٹرانسمیشن آپریٹرز   کی تشکیل کے مجوزہ منصوبوں کو تیز کرے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اگست 2020 میں 442 ملی میٹر کی بارش نے 1967 کے پچھلے 429.3 ملی میٹر کی سابقہ ریکارڈ کو توڑ دیا لیکن اس کے باوجود کوئی بھی برساتی نالوں پر قائم غیر قانونی تعمیرات اور شجرکاری مقامات کو ختم کرنے اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کا خواہاں نظر نہیں آیا۔

انہوں نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ڈی اے، ڈی ایچ اے اور سی بی سی کو تجاوزات کی اجازت دینے کا مکمل طور پر جوابدہ ٹھہراتے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومت کے بنائے ہوئے انڈر پاس بارش کے پانی سے بھر گئے ہیں۔

اسماعیل ستار نے سوال اٹھایا کہ فرنیچر، کپڑا، الیکٹرانکس، سیمنٹ جیسے جی ڈی پی میں کئی اہم شراکت دار فیکٹریوں کے بیسمنٹ تباہ ہوگئے ہیں۔

اس وقت میئر کراچی کہاں تھے؟ کیا یہاں کوئی انتظامیہ نہیں ہے؟ کراچی کی ترقی کے لیے مختص بجٹ کہاں خرچ ہوا؟ برساتی نالوں پر غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت کس نے دی؟ ای ایف پی بورڈ آف ایڈوائزر کی جانب سے متعدد سوالات اٹھائے گئے تھے۔

صدر ای ایف پی نے اگست کے دوران 200 ارب روپے سے زائد معاشی نقصانات پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ نقصانات ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان کرونا وبا سے پیدا ہونے والے سنگین بحرانوں سے نکل رہا تھا۔

کراچی سے پاکستان بھر کی روزی روٹی وابستہ ہے اور اگر خدا نے چاہا تو اسے ٹوکیو جاپان میں تبدیل کیا جانا کوئی بڑی بات نہیں جس میں ہر ضلع کو مکمل انتظامی اختیار حاصل ہو۔

مزید پڑھیں: حالیہ بارشوں سے کراچی بھر کے ریسٹورنٹس میں پانی بھرگیا، اربوں کا نقصان

انہوں نے ناکافی نالوں، برساتی نالوں اور طویل عرصے سے بجلی وگیس کی بندش کی وجہ سے کراچی کے لوگوں کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا جو کچھ کیسز میں 100 گھنٹوں سے زیادہ جاری رہا۔

Related Posts