صدر نے بل پر دستخط کئے یا نہیں؟ حقیقت کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صدر نے بل پر دستخط کئے یا نہیں؟ حقیقت کیا ہے؟
صدر نے بل پر دستخط کئے یا نہیں؟ حقیقت کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بیس اگست کا دن ایک تہلکہ خیز خبر کو ساتھ لئے آیا۔ صدر عار ف علوی نے ٹوئیٹ کیا جس میں انہوں نے حلفیہ کہا کہ میں نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور سپیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پر قطعی دستخط نہیں کئے اور یہ بل اسمبلی کو واپس بھجوانے کی ہدایت کی تھی، میرے سٹاف نے کہا کہ یہ بل واپس بھیج دئیے گئے، ان سے بار بار پوچھتا رہا، یہی جواب ملا کہ بل واپس بھیج دئیے گئے ہیں اور اب اچانک پتہ چلا کہ یہ قوانین بن گئے ہیں۔ صدر نے اسی ٹوئیٹ میں اللہ سے معافی بھی مانگی اور ان سے بھی جو ممکنہ طور پر مستقبل میں ان قوانین کا نشانہ بنیں گے۔

پس منظر
یاد رہے کہ آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل سے آرمی کے اختیارات وسیع ہوجاتے ہیں اور اسے زراعت سمیت بعض دیگر شعبوں میں کام کرنے کا قانونی جواز مل جاتا ہے جبکہ سپیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم نہ صرف اداروں کو بہت زیادہ اختیارات دے گی بلکہ امکان ہے کہ ترمیمی بل کی رو سے عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔ اس لئے تحریک انصاف اور اکثر وکلا تنظیمیں ان دونوں قوانین میں ترامیم کی مخالف تھیں۔

صدر اور آرٹیکل 75
آئین کا آرٹیکل پچھتر 75یہ کہتا ہے کہ جب اسمبلی کوئی بل منظور کر کے صدر مملکت کو بھیجے تو اس کے پاس دو آپشنز ہوتی ہیں۔وہ بل پر دستخط کر دیتا ہے اور وہ قانون بن جاتا ہے۔ یا اگر اسے بل پر کوئی اعتراض ہوتا ہے یا اس کے خیال میں وہ آئین سے متصادم ہے تو وہ دس دنوں کے اندر بل واپس اسمبلی کو بھیج سکتا ہے، ماسوائے بجٹ۔ یہ بل واپس اسمبلی جائے گااور اگر اسمبلی اپنے مشترکہ اجلاس میں اسے دوبارہ منظور کر دے تو وہ بل پھرصدر کے پاس آئے گا۔ اس بار صدر دستخط کرے یا نہ کرے دس دنوں کے اندر اسے لازمی قانون بن جانا ہے۔

موجودہ صورتحال
اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔ جو بل صدر اسمبلی کو واپس بھیج رہے ہیں، وہ نئی اسمبلی ہی آ کر دیکھے گی اور چاہے تو پاس کرے گی۔ الیکشن اور نئی اسمبلی آنے میں آٹھ نو ماہ دیر ہے، تب تک یہ بل اسمبلی سیکریٹریٹ میں پڑے رہیں گے۔

تیرہ دیگر بل
صدر کی جانب سے تیرہ بل پہلے ہی اسمبلی کوواپس بھیجے جا چکے ہیں، اس میں کئی قسم کے معاملات ہیں جن میں کئی یونیورسٹیز کے چارٹر کے بل بھی ہیں۔ان بلوں کی قسمت کا فیصلہ اب نئی اسمبلی ہی آ کر کرے گی۔ اگر صدرنے کوئی مخصوص اعتراض کیا ہے تو اس نکتہ کا جائزہ لے گی اور اگر مناسب سمجھے تو دوبارہ بھی منظور کر سکتی ہے یا ڈراپ کر دے۔

صدر کا دعویٰ کیا ہے؟
صد ر مملکت کا ٹوئیٹ یہ بتاتا ہے کہ باقی تیرہ بلوں کی طرح انہوں نے آرمی ایکٹ اور سپیشل سیکرٹ ایکٹ بھی دستخط کئے بغیر واپس بھجوانے کی ہدایت کی تھی، مگر ان کے سٹاف نے دھوکہ دہی کی اور واپس بھجوانے کے بجائے بل ہولڈ کئے رکھے، حتیٰ کہ مقرردہ مدت گزر گئی اور وہ بل ازخود قانون بن گئے۔ صدر کے دعوے کے مطابق انہوں نے بار بار ان بلوں کے بارے میں پوچھا اور سٹاف نے ہر بار یہی کہا کہ وہ بل بھیج دئیے گئے ہیں۔

ایک بڑا بحران
صدر کا یہ دعویٰ بذات خود ایک بڑے قومی بحران سے کم نہیں۔ صدر جو عہدے کے اعتبار سے مسلح افواج کے سپریم کمانڈر اور سربراہ مملکت ہیں، اگر وہ اس قدر بے بس ہیں کہ ان کا سٹاف ان کی ہدایت پر عمل نہیں کرتا، کسی خاص بل کو کسی خاص منشا یا وجہ سے روک لیتا ہے اور صدر کی بار بار ہدایت کے بعد بھی اس پر عمل نہیں کرتا اور مسلسل دھوکہ دہی سے کام لیتا ہے۔ تو یہ سب ہمارے پورے ریاستی سٹرکچر، آئین، قانون اور معاملات حکومت پر بڑا سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔اس سے عالمی سطح پر پاکستا ن کی جس قدر سبکی یا شرمندگی ہوگی، اس کا تصور کرنا مشکل نہیں۔ بھارت اور دیگر پاکستان مخالف ممالک اس پر کتنا پروپیگنڈہ کریں گے، وہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

وزارت قانون کا دعویٰ
اس بارے میں وزارت قانون کی جانب سے ایک پریس ریلیز آئی ہے جس میں صدر کے موقف کو جھٹلایا گیا ہے، اس میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل سیونٹی فائیو کے تحت صدر یا تو بل پر دستخط کرے یا بل واپس بھیجتے ہوئے اس پر اعتراض بھی لگا کر بھیجے۔ صدر نے ایسا نہیں کیا اور اب حیران کن طور پر اپنے ہی سٹاف کی کریڈیبلٹی پر سوال اٹھا دیا۔

ماہرین قانون کیا کہتے ہیں
ممتاز آئینی ماہر سلمان اکرم راجہ نے وزارت قانون کے اس بیان پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل سیونٹی فائیو صدر کو صرف بل واپس بھیجنے کا کہتا ہے، اس پر اعتراض لکھ کر بھیجنا لازمی نہیں۔ صدر چاہے تو ایسا کر سکتا ہے، نہ چاہے تو صرف بل واپس بھیجنا ہی کافی ہے۔ کئی دیگر ماہرین قانون کی بھی یہی رائے ہے۔

ایک سوال
یہاں پر یہ سوال بھی اٹھانا چاہیے کہ صدر نے جو تیرہ بل اسمبلی کو واپس بھیجے ہیں، ان کے ساتھ کون سے الگ الگ اعتراضات یا میمو لکھ کر بھیجے ہیں؟اگر صرف ساتھ اعتراض نہ لکھنے سے کوئی بل قانون بن سکتا ہے تو پھر ان تیرہ بلوں کو قوانین کیوں نہیں بنایا گیا؟ کیا اس لئے کہ ان سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور ان تیرہ قوانین کو تحریک انصاف کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا؟
ویسے بھی یہ معمول کی قانون سازی تو تھی نہیں۔ اسمبلی نے چار دنوں میں پچاس سے زائد بل منظور کر کے ایوان صدر پر بلوں کی ایک طرح سے بمباری کر دی تھی۔ اگر صدر ہر بل پر قانونی اعتراض لکھنے بیٹھ جاتے تو کئی دن رات اس میں صرف ہوتے۔ اس لئے انہوں نے ان بلوں میں سے بعض کو منظور کر لیا جبکہ ان میں سے کچھ جو قابل اعتراض یا متنازع تھے، انہیں اٹھا کر واپس بھیج دیا۔

کیا نظر آرہا ہے؟
یہ بحران بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ لگتاہے نگران حکومت اور صدر کا ٹکراؤ ہوگا، آج رات تک نگران کابینہ کی جانب سے موقف بھی آ جائے گا اور سو فی صد یہ صدر کے خلاف ہوگا۔ وزارت قانون پہلے ہی اپنا موقف دے چکی ہے۔
یوں نظر آ رہا ہے کہ اگلے چند دنوں میں اس قدر گند اڑے گا کہ صدر کا عہدہ بھی متنازع ہوجائے اور صدر سے استعفے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

کیا صدر کو ہٹایا جا سکتا ہے؟
آئینی طور پر صدر مملکت کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے اور نہ ہی انہیں آئینی طریقہ کار کے بغیر ہٹایا جا سکتا ہے۔ آئین میں صدر کے مواخذہ کا طریقہ کار درج ہے جوکہ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت ہی سے ممکن ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس لئے صدر کا مواخذہ ناممکن ہے۔

البتہ صدر کے عہدہ کی میعاد نوستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ آئینی طور پر جب تک نئی اسمبلی نہیں بن جاتی، موجودہ صدر ہی قائم مقام صدر کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ اس بحران کے بعد قوی امکان یہی ہے کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے صدر کو ہٹا دیا جائے اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر بن کر کام کریں، تاہم اگر صدر عارف علوی ڈٹ گئے تو یہ کام بھی آسان نہیں۔

بحران کاحل کیا ہے؟
ویسے تو صدر کے عہدے کے تقدس کا تقاضا ہے کہ ان کی بات کو درست سمجھا جائے، تاہم سپریم کورٹ اس معاملے پر سوموٹو نوٹس لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کا لارجر بنچ اس معاملے کو سنے اور صدر مملکت کے عہدے کی ساکھ اور اختیار کو بحال کرے۔

Related Posts