امراء کی سازشیں بے نقاب!

مقبول خبریں

کالمز

zia-1-1
غزہ: بھارت کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام؟
zia-1
پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (دوسرا حصہ)
zia-1
پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (پہلا حصہ)

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

"Conspiracies of the Elites Exposed!"

آج دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہو رہی ہیں، وہ نہ مذہب کے لیے ہیں اور نہ ہی انسانیت کی خاطر۔ اصل میں یہ تمام لڑائیاں دولت، اختیار اور طاقت کے حصول کے لیے لڑی جا رہی ہیں مگر ہر طرف مذہب اور انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر ان کی آڑ میں ذاتی مفادات کی جنگ چھیڑی گئی ہے۔

دنیا کی تین بڑی طاقتیں امریکہ، چین اور روس انسانیت کی علمبردار بننے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ یہی طاقتیں اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے ادارے، اور آئی ایم ایف جیسے عالمی ادارے چلاتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان اداروں کو انہوں نے صرف غریب ممالک پر اثر و رسوخ قائم کرنے اور اپنی شرائط مسلط کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

غریب ممالک کے اکثر حکمران ان ہی طاقتوں سے رشوت لے کر اپنی عوام کے دشمن بن جاتے ہیں، اور عوام کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ترقی کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو دنیا میں جرائم، معاشی بدحالی اور سماجی ناہمواری میں دن بہ دن اضافہ نہ ہوتا۔

آئی ایم ایف کو شروع میں اس نیت سے قائم کیا گیا تھا کہ رکن ممالک مل کر مالی وسائل فراہم کریں گے تاکہ غریب ممالک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے والے 90 فیصد ممالک معاشی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کی شرائط کسی سودخور بینک سے کم نہیں ہوتیں، جن کا مقصد فائدہ دینا نہیں، بلکہ معاشی غلامی کو دوام بخشنا ہوتا ہے۔

آج غریب ممالک میں عوام کو بندوق کی گولی سے نہیں، ٹیکسوں کے بم سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی 100 فیصد بڑھ چکی ہے لیکن تنخواہوں میں اضافہ تو دور، لاکھوں نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں۔ جو روزگار حاصل کرتے ہیں، وہ بھی اس قدر کم تنخواہ پر ہوتا ہے کہ ایک وقت کی روٹی کا بندوبست بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

عالمی سطح پر تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے، مگر غریب ممالک میں تعلیم صرف پرائیویٹ اسکولوں تک محدود ہو گئی ہے، جہاں تعلیم ایک مہنگی تجارت بن چکی ہے۔

غریب کا بچہ آج بھی معیاری تعلیم سے محروم ہے۔ جو ایک فیصد بچے تمام مشکلات کے باوجود کامیابی حاصل کرتے ہیں، انہیں مغربی ممالک اپنی ساکھ بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور باقی 99 فیصد بچوں کو ناکام، نااہل اور کمتر باور کرایا جاتا ہے۔

والدین بھی اپنی اولاد کو انہی کامیاب بچوں کی مثالیں دیتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ناکام بچوں کی بڑی تعداد کیوں ناکام ہے؟ ناقص تعلیمی نظام، ذہنی دباؤ، اور تشدد نما سیکھنے کے طریقے بچوں کی صلاحیتوں کو دبا دیتے ہیں۔

اگر تعلیمی ادارے واقعی ایمانداری سے جدید اور معیاری تعلیم عام کریں، تو پرائیویٹ اسکولوں کا اربوں روپے کا کاروبار ختم ہو جائے۔

آج پاکستان میں بعض پرائیویٹ اسکول اتنے دولت مند ہو چکے ہیں کہ وہ پی آئی اے جیسے قومی ادارے خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیا کسی نے ان سے پوچھا کہ یہ اربوں روپے کہاں سے آئے؟ ظاہر ہے، یہ وہ رقم ہے جو غریب والدین نے اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے خواب میں خرچ کی۔

پانی، جو بنیادی انسانی حق ہے، آج دنیا بھر میں ایک کاروبار بن چکا ہے۔ کراچی جیسے شہروں میں دریا کا پانی سمندر میں جا گرتا ہے، مگر عوام تک نہیں پہنچتا۔ اس کی وجہ ٹینکر مافیا ہے، جو اربوں روپے کا ناجائز منافع کما رہا ہے۔

حکومتیں قانون بناتی ہیں، مگر غریب عوام پر۔ موٹرسائیکل، تنخواہ، شادی، موت ہر مرحلے پر ٹیکس اور جرمانے۔ ظلم یہ ہے کہ قانون کی لاٹھی بھی انہی پر برسائی جاتی ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء اتنی غیر معیاری ہو چکی ہیں کہ روزانہ لاکھوں افراد بیمار ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو فارماسیوٹیکل کمپنیاں اور اسپتالوں کا کاروبار کیسے چلے؟ صحت، تعلیم، پانی سب اب انسانیت کے نام پر منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں۔

آج دنیا کے غریب ممالک کے بجٹ اٹھا کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ صرف امیروں کے لیے بنائے گئے ہیں، غریبوں کو مزید دبانے کے لیے نہیں، بلکہ ختم کرنے کے لیے۔ بجٹ میں خوشنما اعداد و شمار ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ “گلاب جامن میں کڑوی دوا” بن جاتے ہیں۔

پاکستان آج دعویٰ کرتا ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، مگر غریبوں کی تعداد میں 44 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، اور اگلے سال مزید 5 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ جی ڈی پی بڑھنے کے باوجود غربت کا بڑھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام غریبوں کا دشمن ہے۔

ہندوستان، جو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے، وہاں بھی 67 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات ہیں، جہاں چند خاندان پوری قوم کی قسمت کے مالک بن جاتے ہیں، قانون اپنے مفاد میں بناتے ہیں، اور حکومتوں کو خرید لیتے ہیں۔

جب تک دولت اور طاقت کا نشہ ختم نہیں ہو گا، انسانیت پستی میں جاتی رہے گی۔ ایک دن ایسا آئے گا جب دنیا مذہب کے نام پر خود کو تباہ کر لے گی، اور دین صرف ایک نشان بن کر رہ جائے گا۔

اسلام انسانیت، محبت اور خدمت کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم واقعی اپنی دینی کتابوں کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، تو ہمیں سمجھ آ جائے گا کہ یہ دنیا عارضی ہے اور ہم اپنے ساتھ صرف اپنے اعمال لے کر جائیں گے۔

سوچیے! بادشاہ ہو یا فقیر، سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ ہم نے بڑے بڑے سیاستدانوں کو قبروں میں جاتے دیکھا ہے، مگر عبرت حاصل نہیں کرتے۔ پیسہ ضرور کمائیں، مگر اسے مقصد نہ بنائیں۔ پیسہ انسان کی خدمت کا ذریعہ ہو سکتا ہے، مگر سب کچھ نہیں۔

اگر آپ کامیاب ہیں، بااختیار ہیں، تو کسی اور کو بھی بااختیار بنائیں۔ یہی اصل کامیابی ہے اور یہی انسانیت ہے۔

Related Posts