پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی ممتاز اور سینئر اداکارہ عائشہ خان کراچی کے علاقے گلشن اقبال بلاک 7 میں اپنے فلیٹ سے مردہ حالت میں برآمد ہوئیں۔
پولیس کے مطابق ان کی موت کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا جب ان کی لاش دریافت کی گئی جس سے ان کی طویل تنہائی اور ممکنہ صحت کے مسائل پر کئی سوالات اٹھے۔ 76 سالہ عائشہ خان برسوں سے عوامی زندگی سے کنارہ کش تھیں اور تنہائی میں زندگی گزار رہی تھیں۔
پولیس نے ان کی لاش کو جناح اسپتال منتقل کر دیا ہے جہاں قانونی کارروائی اور طبی معائنہ جاری ہے جبکہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے ابتدائی تفتیش بھی شروع کر دی گئی ہے۔
ان کا تعلق پاکستان ٹیلی ویژن کے اس سنہری دور سے تھا، جب ڈرامہ صرف تفریح نہیں بلکہ سماجی شعور اور ثقافتی آئینہ ہوتا تھا۔ ان کی پہچان کلاسک ڈراموں جیسے آخری چٹان،ٹیپو سلطان: دی ٹائیگر لارڈ،دہلیز،دراڑیں، بول میری مچھلی ، سائبان اور ایک اور آسمان جیسے مقبول ترین پروگراموں سے جڑی ہوئی ہے۔
عائشہ خان نہ صرف سنجیدہ کرداروں میں مہارت رکھتی تھیں بلکہ مزاحیہ انداز میں بھی اپنی الگ پہچان رکھتی تھیں۔ ان کی جوڑی قاضی واجد اور طلعت حسین جیسے اداکاروں کے ساتھ بے حد پسند کی جاتی تھی۔
ان کی اداکاری کا دائرہ صرف ڈراموں تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے فلموں میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا، جن میں “راجو بن گیا جینٹل مین “مسکان” اور “فاطمہ” شامل ہیں۔
عائشہ خان کا تعلق ایک فنی گھرانے سے تھا، ان کی چھوٹی بہن خالدہ ریاست بھی پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک مشہور اداکارہ تھیں، جن کا انتقال 1996 میں ہوا۔ خالدہ ریاست نے “ایک محبت سو افسانے “ان کہی “تعبیر” اور “نشیمن” جیسے تاریخی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
عائشہ خان کی وفات کے ساتھ ہی ایک ایسا دور ختم ہو گیا جو سنجیدہ فن، تہذیب، اور وقار کا علمبردار تھا۔ ان کی خدمات، سادگی، اور فنی خلوص ہمیشہ پاکستان کے ثقافتی ورثے کا حصہ رہیں گی۔
ان کا تنہا موت مرنا جہاں ایک المیہ ہے، وہیں یہ سوال بھی چھوڑتا ہے کہ ہم اپنے عظیم فنکاروں کو ان کی زندگی میں کتنی اہمیت دیتے ہیں۔