رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں متنبہ فرمایا کہ ہر قوم ایک فتنہ یا آزمائش سے گزرتی ہے اور امت مسلمہ کی آزمائش مال ہے، حدیثِ نبوی ﷺ ہے کہ ’’بے شک ہر قوم کے لیے ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال و دولت ہے۔” (ترمذی، ریاض الصالحین 480) اسلام تسلیم کرتا ہے کہ انسان کم معاشی وسائل پر اکتفا کرنے والے نہیں ہیں ، یہ اپنے مفاد کے لیے دولت کا پیچھا کرتے ہیں، جو کہ بہت سے معاشی نظریات کا بنیادی اصول ہے۔ تاہم، اسلام جانتا ہے کہ انسان اکثر ذاتی تعصبات کی بنیاد پر سب سے بہتر فیصلے کرتے ہیں۔ لہٰذا، قرآن و سنت نے معاشرے کو بہتر بنانے اور معاشی رویے پر اثر انداز ہونے والے نفسیاتی طریقہ کار کی وضاحت کے لیے بنائے گئے معاشی اصول متعارف کرائے ہیں۔
زکوٰۃ کی ادائیگی عبادت کا ایک معاشی ستون ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اسلام دولت کو عبادت سے الگ نہیں کرتا۔ قرآن کی بہت سی آیات ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ دولت کیسے حاصل، خرچ اور سرمایہ کاری کیلئے استعمال جائے۔ قانونی ہدایات کے علاوہ، قرآن و سنت دولت کی نفسیات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جو مناسب معاشی انتخاب کا ایک معیار ہے۔
سلمان رشید کے مزید کالمزپڑھیں:
دکھ اور پریشانی کا اسلامی علاج