اسلام میں سوال کی اہمیت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سوال کرنا علم کے فروغ کا بڑا ذریعہ ہے۔ اسلامی سیاق و سباق میں سوالات پوچھنا ایک اہم طریقہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے علم رحمۃ اللعالمین ﷺ تک اور ان سے دیگر پوچھنے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تک پہنچایا اور جب ہم قرآنِ پاک کا مطالعہ کریں تو ایک لفظ قل ہمیں بار بار نظر آتا ہے جس کا مطلب ہے کہ کہہ دیجئے یا (فلاں سوال کا) جواب دے دیجئے۔

دورِ رسالت ﷺ میں متعدد مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت ﷺ سے روزمرہ زندگی اور مادی امور کے متعلق سوالات کیے اور وہ سوالات بھی کیے جو انسانی علم سے باہر ہیں، نہ انسان انہیں دیکھ سکتا ہے، نہ ان کی گواہی دے سکتا ہے جبکہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ روزمرہ زندگی اور روحانی حیات دونوں کے متعلق سوالات مومن کیلئے اہم ہوتے ہیں۔

مومن کی زندگی میں 3 نکات اہم ہوتے ہیں۔ بہت سے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی مسلسل انہی نکات کے گرد گھومتی ہے جن میں سے پہلا نکتہ علم ہے جو ہمیں زندگی میں تقویت بخشتا ہے۔ ترقی دیتا ہے، زندگی کو بڑھاتا ہے، فائدہ پہنچاتا ہے اور ہماری مدد کرتا ہے۔ ایک مسلمان کیلئے علم کے دو درجات ہیں جن میں سے ایک حقیقی اور ظاہری علم ہے جسے دیکھا اور محسوس کیاجاسکتا ہے اور سنا بھی جاسکتا ہے جبکہ دوسرے علم میں رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موصول ہونے والی وحی شامل ہے جو فرشتوں اور یومِ آخرت کے متعلق بتاتی ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو دیکھی یا محسوس نہیں کی جاسکتی ہیں، ان پر صرف ایمان لایا جاسکتا ہے۔

توبہ کا مطلب صرف معافی مانگنا یا اپنی غلطی کو درست کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی ترغیب مل جائے۔ نبئ مکرم ﷺ نے دن میں 100 بار توبہ اس لیے نہیں کی کہ محسنِ انسانیت ﷺ نے 100 غلطیاں کی تھیں بلکہ توبہ و استغفار اللہ تعالیٰ سے اپنی ہر ممکن اصلاح کیلئے امداد کی التجا کہی جاسکتی ہے جبکہ علم ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لے جاتا ہے تاکہ ہم مزید علم حاصل کرسکیں۔

زندگی کا تیسرا نکتہ مجاہدہ یا جدوجہد ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کہاں بہتری کی ضرورت ہے لیکن اللہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو کوشش کرتے ہوں یا اس کیلئے آمادہ ہوں۔ اس کیلئے امتِ مسلمہ کو بہت سی دعائیں تفویض کی گئیں۔ دعا کا مقصد اللہ کے قریب ہو کر مومن کی حیثیت سے اپنی روحانی حیثیت بہتر کرنا ہے۔ قرآنِ کریم میں سب سے پہلی دعا سورۃ الفاتحہ کی آیت نمبر 6 میں نظر آتی ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم یعنی (اے اللہ!) ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ یہ وہ دعا ہے جو ہر طرح کے معاملات میں انسان کے کام آسکتی ہے۔

پوچھنے یا سوال کرنے کی اہمیت کے متعلق یہ بات اہم ہے کہ بعض اوقات اہلِ ایمان سنجیدہ سوالات کرنےسے ڈرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کبھی سوال کی حوصلہ شکنی نہیں فرمائی۔ انبیائے کرام نے اللہ تعالیٰ سے سوالات کیے اور تابعین نے صحابہ سے، اسی طرح بزرگانِ دین سے عام اہلِ ایمان کے سوال پوچھنے کی روایت عام رہی ہے کیونکہ ایمان ایک بڑی نعمت ہے اور اگر معمولی سا سوال بھی پیدا ہو تو شکوک و شبہات میں اضافہ ایمان کو کمزور کرسکتا ہے۔

ایک حدیث کے مطابق، جسے ابوداؤد اور ابنِ ماجہ میں روایت کیا گیا ہے، صحابہ کرام کی ایک جماعت ایک ساتھ سفر پر تھی، کہ ان میں سے ایک گھوڑے سے گر گئے جس سے ان کا سر ٹوٹ گیا۔ صحابہ نے ان کا طبی علاج کیا اور سر کو پگڑی کی مدد سے بند کردیا۔ زخمی صحابی رضی اللہ عنہ جب دو روز بعد بیدار ہوئے اور نماز کا وقت آیا تو دیگر صحابہ سے پوچھا کہ کیا میں غسل کی بجائے تیمم کرسکتا ہوں؟ کیونکہ سر کے زخم پر پانی لگنے سے زخم بگڑنے کا خدشہ تھا۔ صحابہ نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ اگر پانی ہے تو تیمم نہیں کیاجاسکتا جس پر انہوں نے غسل کیا اور وفات پائی۔

مفہومِ حدیث کے مطابق جب اس سانحے کی اطلاع رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ کو بڑا رنج ہوا۔ فرمایا کہ اگر تم نہیں جانتے تھے تو پوچھ سکتے تھے۔ وہ تیمم کرکے یا کسی چیز سے زخم کو لپیٹ کر اس پر مسح کرکے بچ سکتے تھے اور باقی بدن کو دھویا جاسکتا تھا۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے سمجھایا کہ سوال جہالت کا علاج ہوا کرتا ہے۔

دراصل سوالات علم کو جنم دیتے ہیں جو یقین یا ایمان پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس سوالات دبانے کا نتیجہ غلط لوگوں سے پوچھنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس یلے اگر ہم کسی خاص موضوع سے ناواقف ہیں تو اپنے طور پر رائے دینے کی بجائے اہلِ علم یا ماہرین سے رجوع کرنا چاہئے۔

تاہم مذہب کے متعلق ایسے سوالات جن کے جواب نہیں دئیے جاتے، ایمان میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے تین حل ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اسلام میں علم کو سنجیدگی سے لیا جائے اور یہ کہ اسلام کو سیکھنا ہی ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ کے کلام اور نبی اکرم ﷺ کی سنت سے زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرسکیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جو ایمان سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے ہماری رہنمائی کرسکیں اور ایمان میں اضافے کیلئے ہماری مددکریں۔ مطلب کسی شیخ یا مرشد سے سیکھنا نہیں بلکہ کسی ایسے شخص سے بھی سیکھنے کی کوشش کرنا ہے جسے کسی ایک آیت یا حدیث کا درست فہم و ادراک حاصل ہو جس کیلئے اھدنا الصراط المستقیم کی دعا جو قرآن کریم کے پہلے پارے میں مذکور ہے، ضرور کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے، خاندان، دوستوں، پڑوسیوں اور ملک کے حکمرانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ (آمین)۔ 

Related Posts