احتساب کا وبائی مرض

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے گذشتہ جمعہ کو احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو برطرف کردیا ، جنہوں نے 2018 میں العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سزا سنائی تھی۔

سات رکنی کمیٹی نے ان کو برخاست کردیا ،مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں جج کو نواز شریف کو دباؤ کے تحت سزا سنانے کا اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

اس کمیٹی کی سربراہی چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کی،سات رکنی باڈی میں جسٹس محمد عامر بھٹی ، جسٹس شہزاد احمد خان ، جسٹس عائشہ ملک ، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی بھی شامل تھے۔ گذشتہ سال 26 اگست کو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کو کمیٹی نے انکوائری کا کام سونپا تھا۔

موجودہ حکومت کے دور میں لاہور ہائیکورٹ کا یہ ایک اہم فیصلہ ہے لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ تالاب میں وہی گندی مچھلی تھی تو آپ بے حد معصوم ہیں۔ ماتحت عدلیہ سے لے کر احتساب عدالتوں اور اعلیٰ عدالتوں میں بھی ایسے ہزاروں افراد ہوسکتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے ، جسٹس نسیم حسن شاہ نے روزنامہ جنگ / جیو نیوز کے ایک سینئر صحافی افتخار احمد کو جواب دیا بتایا تھا کہ بہت سے مواقع پر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو بھی اپنی ملازمت کو بچانے کے لئے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔

جسٹس نسیم حسن شاہ ان ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے کئی بار اپنی نوکریوں کو بچایا۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ 4 اور 3فرق سے کیا گیا تھا، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ عدالتوں میں ناانصافی کا آغاز چیف مارشل لاء  ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور حکومت میں شروع ہوا جس نے 5 جولائی 1977 کوبدعنوانانہ طرز عمل کا آغاز کیا اوروزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بے دخل کردیا۔

اس کے بعد سے عدالتی استحصال اور ناانصافی نے آہستہ آہستہ پرورش پائی اوراب لوگ وکیل کی بجائے جج کی خدمات حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ کسی مقدمے کو موثر انداز میں جیتنے کے لئے آپ کو ڈبل فیس ادا کرنا ہوگی ورنہ آپ اپنے معاملے کی پیروی میں عدالت کے دروازے پر مرجائیں گے۔

ہم نے ایسے بہت سے معاملات دیکھے ہیں جبکہ 1اعشاریہ 8 ملین مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ احتساب کی وبائی بیماری کا کوئی احتساب نہیں۔ جج ارشد ملک شاید پاکستان کی عدالتی تاریخ کے بہت ہی کم مقدمات میں سے ایک ہیں جنہیں بدانتظامی پر برخاست کیاگیا ہے ۔

پاکستان کا کوئی بھی شہری قومی احتساب بیورو کو کس طرح فراموش کرسکتا ہے جسے سیاسی طور پرہراساں کرنے ، ذاتی انتقامی تذلیل اور جان بوجھ کر ناانصافی کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ قومی خزانے سے اربوں خرچ کرنے کے باوجود نیب 180 میں سے صرف چار مقدمات میں سزاء سناسکاہے جوانتہائی شرمناک کارکردگی ہے۔

نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال پرجنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہوچکا ہے۔ ویڈیواسکینڈل کے باوجود وہ اب بھی اپنے دفتر میں موجودہیں۔

یہاں اچھی کارکردگی کی کچھ مثالیں ہیں۔ میاں نواز شریف کو ایک دو معاملوں میں بری کردیا گیا۔ میاں خاندان کے دوسرے افراد نے تن تنہا سیاسی انتقام کا سامنا کیا ، کسی بھی معاملے میں کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہوئی۔

مسلم لیگ ن کے سابق ممبر قومی اسمبلی کو منشیات کے معاملے میں بری کردیا گیا ہے اور عدالتوں نے اس کے تمام اثاثے اور اکاؤنٹ بحال کردیئے ہیں اور اس کے کنبہ کے دیگر ممبر بھی جو اس کیس میں ملوث ان کو کے اکائونٹس بھی بحال کردیئے گئے ہیں۔

نیب مہینوں نظربند رکھنے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے رانا ثناء اللہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تلاش کرسکا،پرویز رشید اور احسن اقبال کے کیسز کا بھی یہی حال ہے۔ مؤخر الذکر کو اپنے خلاف کچھ نہ ملنے کے لئے قریباً چار ماہ تک جیل میں رکھا گیا تھا۔

میڈیا کے ایک اہم گرو اور جنگ / جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن نیب کی غیر قانونی تحویل میں ہیں لیکن نیب کواب تک ان پر لگائے جانیوالے الزامات کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ کسی بھی شک یا الزام کی بناء پر گرفتاری کے بعد ثبوت ڈھونڈھنے کا کام صرف نیب ہی کرسکتا ہے۔