بلیک میلنگ میں آکر اگر اداروں کو پیچھے ہٹنے کا کہہ دوں تو میں اپنی قوم سے غداری کروں گا، وزیر اعظم

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

PM Imran address Tiger Force Convention in islamabad

اسلام آباد: وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں ان کی بلیک میلنگ میں آکر اگر اداروں کو پیچھے ہٹنے کا کہہ دوں تو میں اپنی قوم سے غداری کروں گا۔

ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب سے کرتے ہوئے عمران خان نے کہاکہ میں جنرل مشرف کی طرح مک مکا کرلوں، انہیں این آر او دے دوں تو سب آرام سے بیٹھ جائیں گے اور ملک میں کوئی افرا تفری نہیں ہوگی مگر مجھے خوف خدا ہے، مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے میں ان کی طرح نہیں، این آر او کا مطلب ہے کہ ان کے کرپشن کیسز معاف کردیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے گزشتہ 10 سالوں میں پاکستان کا قرضہ 4 گنا بڑھایا ہے، مہنگائی کی وجہ سے قوم پر مشکل وقت گزر رہا ہے اور یہ مشکل وقت ان ہی کی وجہ سے ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ میں سب کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مجھے مقابلہ کرنے کی بہترین تربیت ہے اور اس سے قبل بھی مقابلہ کرکے میدانوں میں پاکستان کو اوپر لے کر جاچکا ہوں، مجھے ہارنا بھی آتا ہے جیتنا بھی آتا ہے اور ہار کر کیسے جیتا جاتا ہے وہ بھی آتا ہے۔انہوں نےکہا کہ مجھے پارٹی وراثت میں نہیں ملی اور نہ ہی جنرل جیلانی کے گھر کا سریا لگاتے لگاتے کوئی وزارت حاصل کی تھی، 22 سال کی جدو جہد کی ہے تب جاکر اس مقام پر پہنچا ہوں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ شریف خاندان کے پاس جتنا پیسہ ہے یہ 7 ارب روپے کی ٹپ دے سکتے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے عمران خان نے کہا کہ شریف خاندان کے پاس جتنا پیسہ ہے یہ 7 ارب روپے کی ٹپ دے سکتے ہیں مگر شہباز شریف نے کہا کہ میں گارنٹی دوں گا، جن کا خود کا بیٹا، داماد بھاگا ہوا ہو وہ کیا گارنٹی دیں گے۔

انہوںنے کہاکہ نواز شریف کے دونوں بیٹے پہلے ہی بھاگے ہوئے ہیں ان کی کون گارنٹی دے گا۔وزیر اعظم نے کہاکہ عدالت کا فیصلہ قبول کرتے ہیں، شہباز شریف جو ڈرامے کررہے ہیں قوم سب سمجھ چکی ہے، کہتے ہیں نواز شریف کو کچھ ہوا تو عمران خان ذمہ دار ہوگا، 800 سے زائد قیدی جیلوں میں گزشتہ 10 سالوں میں مرچکے ہیں ان کا کون ذمہ دار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: این آر او مانگنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، وزیراعظم

انہوں نے کہاکہ میرا ایمان ہے کہ پاکستان ایک عظیم قوم بنے گی اور وہ اس وقت بنے گی جب یہ مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر کھڑی ہوگی، مدینہ کی ریاست کی بنیاد انصاف اور انسانیت پر رکھی گئی تھی، جو ریاست اپنے کمزور، غریب، بیواؤں، یتیموں پر رحم کرتی ہے وہ کامیاب ہوتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہاہے کہ پاکستان میں اگر کوئی دھرنے کا ماہر ہے تو وہ میں ہوں، پچھلے دنوں کنٹینر پر سرکس ہوا، میں نے کہا تھا کہ اگر ایک مہینہ یہ کنٹینر پر گزار دیں تو میں مان جاؤں گا، میں نے 126 دن کنٹینر پر گزارے ہیں، میں جانتا ہوں کہ کنٹینر اور دھرنا کیا ہوتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہاکہ دھرنے کے نام پر مدرسے کے بچوں کو لایا گیا، ہماری حکومت پہلی حکومت ہے جس نے مدرسوں کے بچوں کی ذمہ داری لی، دھرنے کے شرکا سے جاکر پوچھا جائے تو انہیں معلوم بھی نہیں ہوگا کہ ان کا دھرنے میں آنے کا مقصد کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سب سے مشکل گھڑی میرے لیے اس وقت تھی کہ جب بارش میں مدرسے کے بچے باہر بیٹھے تھے اور مولانا فضل الرحمن گرم کمرے میں گھر پر بیٹھے تھے۔

مسلم لیگ ن کے صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایک مجرم جسے عدالت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی، ہمیں عدالتی فیصلہ قبول ہے لیکن شہباز شریف جو نیلسن منڈیلا بننے کی کوشش کرتا ہے اس نے اس معاملے پر سیاست کی۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہاہے کہ ایک آدمی اسلام کے نام پر سیاست کر رہا ہے،مجھے مولانا فضل الرحمن کی آخرت کی فکر ہے ، ڈیزل کے پرمٹ پر بکنے والا، کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ پر بکنے والا حکومت گرانے کی باتیں کر رہا ہے ، دعا مانگتا ہوں کہ اللہ تعالی انہیں وہ سزائیں نہ دے جو انہیں ملنی ہیں۔

وزیر اعظم نے کہاکہ ملکی نظام عدل کاتاثر یہی ہے کہ یہاں طاقتور کے لیے ایک قانون ہے اور کمزور کے لیے دوسرا، عدلیہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کرے، چیف جسٹس کھوسہ اور ان کے بعد آنے والے جسٹس گلزار ملک کو انصاف دے کر آزاد کریں۔

انہوں نے کہاکہ ماضی میں ایک چیف جسٹس کو فارغ کرنے کے لیئے دوسرے جج کو نوٹوں کے بریف کیس دے کر بھیجا گیا۔ سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانے کیلئے فون پر فیصلے لکھوائے گئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت سے جو مدد چاہیے حکومت تیار ہے لیکن اس ملک میں عدلیہ نے عوام کا ااعتماد بحال کرنا ہے کہ یہاں سب کیلئے ایک قانون ہے۔

وزیر اعظم نے کہاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کفر کا نظام چل جائے گا مگر نا انصافی کا نہیں۔انہوںنے کہاکہ میں عدلیہ سے گزارش ہے کہ عوام کا بھروسہ بحال کریں کہ یہاں سب کیلئے ایک قانون ہے۔

Related Posts