پاکستان کیلئے کڑا وقت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 ایک طرف تو خطے کے بدلتے تغیرایات اور دوسری طرف افغانستان میں سول وار کی ابتداء اور تیسری طرف مودی کی بتدریج پاکستان کیخلاف چالیں جس میں ففتھ جنریشن وار کا بڑھتا استعمال دکھائی دے رہا ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی پاکستان میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغواء جس کے واقعہ کے دو پہلو منظر عام پرآئے ہیں۔

اس معاملے میں ظاہری طور پر تحقیقات میں جو چیز ابھری ہے اور جو حالات و واقعات ہیں اور یہ بات کہ افغان سفیر نے تحقیقات میں تعاون نہیں کیا، یہ تمام چیزیں ایک ایسی سمت میں لے جاتی ہیں جس سے یہ خدشہ درست ثابت ہوتا ہے کہ اس کہانی کی حقیقت کچھ اور ہے۔تمام چیزیں واضح ہونے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایساڈرامہ رچانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

پاکستان میں اگر ہم دیکھیں تو گزشتہ کئی سال سے پہلے فورتھ اور اب ففتھ جنریشن وار کا سلسلہ اپنے پورے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس کو مدنظر رکھا جائے اور خطے کے بدلتے جغرافیائی اور بین الاقوامی سیاسی پس منظر کو سامنے رکھا جائے جب افغانستان میں اس وقت درپیش حالات میں اشرف غنی کی حکومت اوردیگر ممالک کی جانب سے پاکستان کو بار بار مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔

اس ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پاکستان کو بدنام کیا جارہا ہے اور ان مذموم ارادوں میں بھارت اپنے اسرائیلی ہمنواؤں کے ساتھ ملکرپیش پیش ہے اور اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے را کا سب سے زیادہ بجٹ بھی اس مقصد کیلئے مختص کیا ہے اور بھارت افغانستان اور پاکستان میں موجوداپنے ایجنٹوں کے ذریعے سفیر افغانستان کی بیٹی جیسے واقعات پیدا کرکے پاکستان کیلئے مشکلات کھڑی کررہا ہے۔

اشرف غنی نے اپنے دور صدارت کے دوران افغانستان میں کرپشن کو فروغ دیا اور اپنی کرپشن اور حکومت کے مزے اڑانے کیلئے پاکستان پرالزام تراشی کی سیاست شروع کردی ہے۔افغان صدر اشرف غنی اور وزیر دفاع مسلسل پاکستان پر الزامات عائد کرکے دباؤ ڈالنے اور اقوام عالم کے سامنے شرمندہ کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگارہے ہیں اور افغان صدر اشرف غنی اور بھارت کا گٹھ جوڑ بھی کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے جبکہ افغان سفیر کی بیٹی کے معاملے اور پاکستان سے 10ہزارجنگجوافغانستان بھیجنے کے الزامات بھی افغان بھارت سازش کا حصہ ہے جس میں پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

اشرف غنی کی کوشش ہے کہ کسی طرح اپنی ناکامی پاکستان کے سر تھوپ کر اپنے دورحکومت کو طوالت دیا جاسکے۔موجودہ حالات میں اشرف غنی کو افغانستان سے نکلنے کا موقع ملنا بھی ایک ناممکنات میں تبدیل ہوتاجارہا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ اشرف غنی اپنے اہل و عیال کو بیرون ملک بھیجنے کے بعد کسی وقت بھی افغان طالبان کی چڑھائی کی صورت میں بھاگنے کی کوشش کرینگے مگر شائد ان کو اس کا موقع ملنا آسان نہیں ہوگا۔

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا اور چین کے درمیان جاری تناؤمیں اضافہ ہورہا ہے اور امریکا کی کوشش ہے کہ بی آر آئی کومکمل ہونے سے روکا جائے اور سی پیک کو روک کر امریکا چین کوزیر بار کرنے کے درپہ ہے ،ان تمام چیزوں کو سامنے رکھا جائے تو حالات مزیدکشیدگی کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں اور اس تمام تر صورتحال میں امریکا اور بھارت کا پس پردہ گٹھ جوڑ بھی واضح ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی جہاں تک بات ہے تو تمام ممالک ایف اے ٹی ایف کے 40 نکات پر عملدرآمد کے پابند ہیں جس میں دیگر نکات کے علاوہ 27 نکات جنرل، 9نکات دہشت گردوں کی مالی اعانت کے حوالے سے ہیں جوسانحہ نائن الیون کے بعد شامل کئے گئے تھے اور تمام ممالک کو اسی پیمانے پر پرکھا جاتا ہے اور جہاں تک بات پاکستان کی جانب سے 27 میں سے 26 نکات پر عمل کرنے کی ہے تو ایف اے ٹی ایف کے آخر نکتہ پر عمل کروانے کیلئے دباؤ ہے اورایف اے ٹی ایف کے صدر اور امریکا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جب تک پاکستان اس پر عمل نہیں کرتا تب تک گرے لسٹ سے نکلنا ناممکن ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے اس آخری نکتہ پر عملدرآمد کیلئے قانون بنادیاہے اور معاملے کو عدلیہ کے سپرد کردیا ہے جس پر کام جاری ہے اور جلدہی اس معاملے پر بھی پیشرفت کے آثار واضح ہیں۔

ایف اے ٹی ایف کے آخری نکتہ کو جواز بنانے کے پیچھے بھی سیاسی محرکات ہیں جو ففتھ جنریشن وار کا شاخسانہ ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان پر ہمیشہ دہشت گردوں کی سہولت کاری اور مالی اعانت کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے اور اب ایف اے ٹی ایف کے اس آخری نکتہ کو جواز بناکر ایک بار پھر پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور حالات کو اس نہج پر پہنچایا جارہا ہے جہاں پاکستان کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبورکیا جاسکے اورپاکستان کو مستقبل میں پابندیوں کے جال میں جکڑا جاسکے۔

Related Posts