اسلام آباد میں نوجوان کو بے دردی سے قتل کرکے لاش جنگل میں پھینک دی گئی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد میں نوجوان کو بے دردی سے قتل کرکے لاش جنگل میں پھینک دی گئی
اسلام آباد میں نوجوان کو بے دردی سے قتل کرکے لاش جنگل میں پھینک دی گئی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد:  بلتستان کے علاقہ قمراہ سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ نوجوان کو نامعلوم سفاک قاتلوں نے انتہائی بیدردی کے ساتھ قتل کردیا اور نعش بوری میں بند کرکے ایف 11/3 کے جنگل ایریا میں پھینک دی۔

معلوم ہوا ہے کہ 33 سالہ وزیر محمد اسحاق نامی نوجوان 4 سال سے علی پور بلتی کالونی میں کرائے پرمقیم تھا  جس کی علی پور میں ہی ویلڈنگ کی دکان تھی جبکہ رات کو وہ بینک سٹاپ اور ترامڑی میں واقع  نجی موبائل فون کمپنی میں  چوکیداری کی ملازمت بھی کرتا تھا۔

گزشتہ ماہ 29 فروری کو  اسحاق کے والد غلام نبی اپنے بھائی غلام رسول کے ہمراہ چند رشتہ داروں سے ملنے گھرسے نکلے اور رات رشتہ دار کے گھرہی قیام کیا۔یکم مارچ کو غلام نبی نے اسحاق سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اس کا موبائل فون آف تھا۔انہوں نے متعدد بار کالز کیں لیکن فون مسلسل بند ملتا رہا۔

اس رات وہ اپنے ایک اور رشتہ دار کے ہاں ٹھہرے اوراگلے روز 2 مارچ کو علی پور میں واپس  گھر آئے تو اسحاق کا کچھ پتہ نہ چل سکاجس کے بعد اس کی باقاعدہ تلاش شروع ہوئی۔3 مارچ کو ہی تھانہ شالیمار پولیس کے علاقہ ایف 11/3کے جنگل ایریا سے پولیس کو ایک نوجوان کی بوری بند لاش ملی۔

مقتول کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے اور سر پر گہرے زخم کے نشانات موجود تھے۔پولیس نے لاش کی شناخت نہ ہونے پر پمز ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھوادی۔مقتول کے فنگرپرنٹس لئے گئے اور نمونے شناخت کے لئے نادرا آفس بھجوادیئے گئے۔

لاش ملنے کے تیسرے روز 6 مارچ کو نادرا آفس سے مقتول نوجوان کی شناخت وزیر محمد اسحاق ولد غلام نبی کے نام سے ہوئی۔پولیس نے اسحاق کے اسکردو میں مقیم بھائی وزیرالیاس سے فون پر رابطہ کیا اور اطلاع دی کہ وزیراسحاق کی لاش اس وقت پمزہسپتال میں پڑی ہوئی ہے۔

ورثاء کو اسحاق کی گمشدگی کے چھٹے روز اس کی لاش ملی جبکہ پولیس کو لاش ملنے کے 3 روزبعد پتہ چلاکہ یہ نعش کس کی ہے؟پولیس تھانہ شالیمار نے نعش برآمدگی کے روز ہی 3مارچ کو قتلِ عمد کی دفعہ302 کے تحت مقدمہ نمبر71درج کرلیاتھا۔پولیس نے یہ مقدمہ سب انسپکٹر سیف اللہ کی مدعیت میں درج کیا۔

بعدازاں نعش پوسٹ مارٹم کے بعدورثاء کے حوالے کردی گئی جوتدفین کے لئے سکردو لے گئے۔جہاں 8 مارچ کو اسے سپردخاک کردیا گیا۔ایس پی صدرزون عمرخان نے رابطہ پربتایاکہ مقتول کی لاش  جی 11  اورایف 11  کے درمیان روڈ کے ساتھ 10 سے 15 فٹ نیچے گرین ایریا سے برآمد ہوئی تھی۔

ایس پی صدر زون نے بتایا کہ جائے وقوعہ اورمقتول کے پاس سے کوئی ایسی شے برآمد نہیں ہوئی جس سے اس کی شناخت ہوسکے۔پولیس نے فوری طور پر لاش پوسٹ مارٹم کے لئے پمزہسپتال بھجوائی۔مقتول کے سرپرضرب کے نشان موجود تھے جو ڈنڈے یا پتھرسے مارنے کے بھی ہوسکتے ہیں۔مقتول کے فنگرپرنٹس لئے گئے اورنادرا آفس کو بھجوائے گئے۔

عمر خان نے مزیدبتایاکہ مقتول کے نام پر 5 سمیں رجسٹرڈ تھیں جن میں سے 4 سموں کا ڈیٹا موصول ہوچکاہے۔تاہم اس ڈیٹا سے تفتیش میں کوئی خاطرخواہ کامیابی نہ ہوسکی کیونکہ لوکیشن مختلف آرہی ہے۔مقتول کے والد نے مقتول کا ٹیلی نار کا جونمبردیاتھاوہ نمبر 3ماہ سے استعمال ہی نہیں ہوا۔

انہوں نے مزیدکہاکہ پولیس مقتول کے قریبی دوستوں،آس پڑوس کے دکانداروں اورمحلہ داروں کے بیانات قلمبند کرچکی ہے۔بہت جلد اس اندھے قتل کا سراغ لگاکر اصل ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔مقتول وزیراسحاق کے ورثاء کا کہناہے کہ وزیراسحاق ایک بے ضررسا انسان تھا۔

دوستوں کے مطابق مقتول کو کچھ کالز اس قسم کی ضرورآتی تھیں جس سے وہ فون پرلمبی لمبی گفتگوکیاکرتاتھا۔پھراکثرفون بند کرنے کے بعد وہ پریشان سادکھائی دیتاتھا۔انہوں نے مزیدبتایاکہ 29فروری کو اسحاق اپنے چھوٹے بھائی محمداعجاز کوگاؤں بھجوانے کے لئے پیرودھائی اڈے بھی گیاتھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس روز وہ ہمارے ساتھ رابطہ میں تھا۔ اگلے روز یکم مارچ سے وہ لاپتہ ہوا۔ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے اورنہ ہی کسی پر قتل کا شبہ ہے۔معلوم ہواہے کہ مقتول وزیراسحاق شادی شدہ تھا اور 4سالہ بیٹے کا باپ تھا۔اس کے اہلِ خانہ سکردو آستانہ میں مقیم ہیں جبکہ وہ علی پور نئی آبادی میں کرائے پررہتاتھا۔

Related Posts