کیا پاکستانی فلم ساز بھی سماجی مسائل پر فلمیں بنائیں گے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا پاکستانی فلم ساز بھی سماجی مسائل پر فلمیں بنائیں گے؟
کیا پاکستانی فلم ساز بھی سماجی مسائل پر فلمیں بنائیں گے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارتی فلمساز سنجے لیلیٰ  بھنسالی نے ڈیجیٹل ویب سیریز کا اعلان کیا ہے۔ ڈائریکٹر بھنسانی کی ہیرامنڈی میں آنے تماش بینوں پر مشتمل سیریز اب سینما تھیٹر پر نہیں بلکہ نیب فلیکس پر پیش کی جائے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ “ہیرامنڈی” پاکستان کا ایک حصہ ہے جسے لاہور میں شاہی محلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے اکثر بدنام زمانہ ریڈ لائٹ ایریا بھی کہا جاتا ہے ۔ بھارت میں ویب سیریز بننے کی خبروں کے ساتھ پاکستان میں غم وغصہ کی لہر روڈ گئی ہے کیونکہ پاکستانی ہدایت کاروں نے کبھی اس اہم تاریخی جگہ پر فلم یا ڈاکیومنٹری بنانے کا نہیں سوچا۔

تنقید درست لگ رہی ہے کیونکہ پاکستان میں ایسے موضوعات پر فلمیں بنانی چاہئیں۔ کیا پاکستان میں سنسر شپ پالیسی کے تحت ایسی فلمیں بنائی جاسکیں گی؟ ہم نے صرف رومانوی فلموں اور تھکی ہوئی کامیڈی پر مبنی فلمیں بناتے ہیں لیکن حساس موضوعات پر بننے والی فلموں کی طرف فلم سازوں نے کبھی قدم نہیں اٹھایا ہے۔

ہیرا منڈی کیا ہے؟

لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا کے طور پر جانا جانے والا یہ محلہ “ہیرا منڈی” کے نام سے مشہور ہے۔ ‘جہاں درباری ملکائیں تھیں’۔ یہ 15 ویں اور 16 ویں صدی میں یہ شہر کی طوائف الملوکی کا مرکز تھا۔

بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ ‘منڈی’ کا نام ہیرا سنگھ سے پڑا تھا، جو رنجیت سنگھ کے شاہی دربار کے ایک وزیر کے بیٹے تھے۔ ہیرا سنگھ ، شیر سنگھ کے دور حکومت میں بھی دربار کے وزیر تھے۔

تاہم جب برصغیر میں برطانوی راج برسر اقتدار آیا تو “ہیرا منڈی” وہاں سے منتقل ہو گئی تھی کیونکہ اس علاقے کو گناہوں کو علاقہ تصور کیا جاتا تھا۔ اب آزاد پاکستان کے بعد بھی “ہیرا منڈی” پہلے کی طرح چل رہی ہے۔

اگرچہ پاکستان میں جسم فروشی غیر قانونی سمجھی جاتی ہے۔ رات کو یہ علاقہ “ہیرا منڈی” میں تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ دن میں یہ علاقہ شاہی محلہ کہلاتا ہے۔ جہاں کھانے پینے کی بہت مشہور دکانیں بھی موجود ہیں۔

بھارت “ہیرا منڈی” پر فلم بنا رہا ہے

سنجے لیلا بھنسالی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ نیٹ فلکس کی پروڈکشن کے تحت وہ ایک ویب سیریز ”ہیرامنڈی“ تیار کریں گے جو ان کا ڈیجیٹل ڈیبیو بھی ہوگا۔

سیریز ’ہیرامنڈی‘ میں تماش بینوں کہانیاں اور ہیرا منڈی کی پوشیدہ ثقافتی حقیقت دکھائی جائے گی۔ ویب سیریز محبت ، خیانت ، جانشینی اور سیاست کے بارے میں ہوگی۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری اور سماجی مسائل

سماجی مسائل اور انسانی حقوق پر فلمیں بنانا ضروری ہے کیونکہ وہ لوگوں کے ذہنوں کو کھولنے میں مدد کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستانی سماجی مسائل کے علاوہ ہر چیز تیار کرتے ہیں، کیونکہ ملکی عوام اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔

‘امراؤ جانِ ادا’ 1972 میں پاکستان میں بنائی گئی فلم تھی۔ اس فلم نے پاکستان میں جنسی استحصال کی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کیا تھا۔

آگے بڑھتے ہیں ، پاکستان میں ہر دوسری فلم کے پیچھے ہمیشہ ایک گروہ کا کردار کارفرما رہا ہے جو سماجی مسائل کو “سیاق و سباق” سے ہٹ کر پیش کرتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ ان مسائل کو پیش ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

کیا ہمارے فلم ساز کبھی سماجی مسائل پر مبنی فلمیں بنائیں گے؟

آج تک سچی کہانیوں اور تلخ حقیقت پر بننے والی تقریباً تمام فلموں پر پاکستان میں پابندی لگ چکی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں سماجی مسائل پر بنے والی فلموں “زندگی تماشا” ، “ملک” اور “درج” پر پابندی لگ چکی ہے۔ پاکستان میں سماجی مسائل پر بننے والی فلموں پر پابندی کیوں لگتی ہے؟ کیونکہ فلم کا سیاق و سباق حقیقی واقعات یا سماجی مسائل پر مبنی تھا۔

پاکستان میں سنسر بورڈ کی نرم پالسیز کی باوجود فلموں کا کاروبار کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم ’زندگی تماشا‘ کو سنسر بورڈ نے منظور کرلیا تھا مگر مذہبی جماعت ٹی ایل پی کی مخالفت کی وجہ سے سینما گھروں کی زینت نہیں بن سکی۔

اس لیے پاکستان میں “ہیرامنڈی” جیسی فلمیں بنانا شاید آسان ہو مگر ان کو سینما گھروں میں چلانا مسئلہ ہے۔ کیونکہ پاکستان میں “اڑاری” اور “درج” جیسے ڈراموں اور فلموں پر پابندی تاریخ کا حصہ ہے لیکن ان فلموں کو آسانی جگہ مل جاتی ہیں جن میں سماجی مسائل کی طرف اشارہ نہیں ہوتا ہے۔

Related Posts