دا لیڈی آف ہیون: فلم کس موضوع پر بنائی گئی ہے اور اس کو پابندی کا سامنا کیوں ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دا لیڈی آف ہیون : فلم کس بارے میں ہے اور اس کو پابندی کا سامنا کیوں ہے؟
دا لیڈی آف ہیون : فلم کس بارے میں ہے اور اس کو پابندی کا سامنا کیوں ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا  پر مبنی فلم ہونے کے باوجود دا لیڈی آف ہیون کو متعدد مسلم ممالک میں پابندی کا سامنا ہے۔

ایلی کنگ کی ہدایت کاری میں بننے والی ‘دا لیڈی آف ہیوین’ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کی کہانی پر مبنی ہے۔ لیکن اس فلم کو پابندی کا سامنا ہے، یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ اس فلم کو پاکستان سمیت تمام مسلم ریاستوں میں پابندی کا سامنا ہے؟

دا لیڈی آف ہیون کا خلاصہ

فلم دا لیڈی آف ہیون برطانیہ میں 3 جون کو ریلیز ہوئی تھی، جس میں 1400 سال پر محیط دو الگ الگ کہانیاں دکھائی گئیں۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک عراقی لڑکا لیتھ جنگ میں والدین کے مرنے کے بعد اکیلا ہوجاتا ہے جسے بی بی فاطمہ گود لے لیتی ہیں۔

بعدازاں بی بی فاطمہ لیتھ کو اپنی جدوجہد کی کہانی سناتی ہیں اور اُسے جدید دور کی دنیا کے طور طریقے سکھاتی ہیں۔

تصادم

فلم دا لیڈی آف ہیون کو مسلم ممالک کی جانب سے پابندی کا سامنا ہے، خاص طور پر ایسے مکتبہ فکر سے جو کہ سنی ہیں، اس مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ فلم میں تاریخی واقعات کو درست طریقے سے نہیں دکھایا گیا۔

اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت بی بی فاطمہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صاحبزادی تھیں، سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حضرت فاطمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں جبکہ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی صاحبزادی تھیں۔

شیعہ مسلمان اکثر اوقات حضرت فاطمہ کا موازنہ حضرت عیسیٰ کی والدہ مریم سے کرتے ہیں، وہ حضرت فاطمہ کو ایک اعلیٰ مثال کے طور پر مانتے ہیں، جو مصیبت کے وقت ہمدردی، مہربانی اور برداشت کا نمونہ ہے۔

فلم اتنی متنازع کیوں ہے؟

سب سے پہلے تو قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصاویر دکھانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے، اسلامی تعلیمات میں اِن مشہور ہستیوں کی تصاویر دکھانے کو بُرا فعل سمجھا جاتا ہے۔

فلم دا لیڈی آف ہیون کو اشتعال انگیز مواد اور ناقص پس منظر کی وجہ سے نامور اسلامی اسکالرز اور مسلم ممالک نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

برطانیہ کے سینیما گھروں کے باہر فلم کے پوسٹرز دیکھ کر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ فلم کی نمائش کو روکا جائے، اس کے علاوہ فلم کی نمائش روکنے کیلئے ایک آن لائن پیٹیشن بھی سائن کی گئی جس پر اب تک 126،000 سے زیادہ لوگ دستخط کرچکے ہیں، اِن لوگوں کا ماننا ہے کہ فلم کے ذریعے سے اسلام کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ایرانی حکومت نے دا لیڈی آف ہیون کی نمائش پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس فلم کا مقصد مسلمانوں کو تقسیم کرنا ہے، آٹھ شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ فلم سے مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی، اُن کا کہنا تھا کہ انھیں مسلمانوں کی تاریخ بتانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

فلم اور سینما گھر

برطانیہ میں نمائش کے بعد فلم کو دیگر ممالک میں پیش کیا جانا تھا لیکن احتجاج کے بعد مالکان نے اعلان کیا کہ انہوں نے فلم کی نمائش روک دی ہے،اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں فلم کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیں خوف ہے کہ کہیں فلم کے کسی عملے کو نقصان نہیں پہنچ جائے، اسی لئے ہم فلم کی نمائش کو منسوخ کررہے ہیں۔

فلم کی نمائش روکنا درست نہیں

عوام کسی فلم کی نمائش کو روکنے کیلئے آزاد ہے لیکن فلم کی پابندی کیخلاف احتجاج کرنا ایک ایسی چیز ہے جو ’اوور سٹیپڈ باؤنڈریز‘ ہے، جس میں مختلف خیالات رکھنے والے لوگ کسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی لئے اس کو روکنے کیلئے برطانیہ میں تقریباً 3,700 لوگوں نے ایک آن لائن پیٹیشن پر دستخط کیے، جس میں فلم کو برطانیہ کے سینما گھروں سے سپورٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کی وجہ سے فلم کی نمائش کو روکنا ایک آزاد اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے ملک کیلئے مناسب نہیں ہے۔

Related Posts