سندھ میں تعلیم کا نظام توجہ کا متقاضی ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمارے ملک میں خاص طور پر صوبہ سندھ میں نظام تعلیم سرکاری عدم دلچسپی اور لاپرواہی کی وجہ سے سخت مشکلات سے دوچارہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف ساڑھے چار لاکھ بچے سندھ بھر کے اسکولوں سے باہرہیں جبکہ صوبے میں دس ہزار سے زیادہ اسکول غیر فعال ہیں۔

گھوسٹ اسکولوں اور اساتذہ کی کمی بھی ایک دیرینہ مسئلہ ہے، موجودہ وسائل تعلیم دینے کے علاوہ دیگر کاموں کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ محکمہ تعلیم سندھ اور خواندگی کی دو سال بعد جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 49103 اسکولوں کے لئے 133000 اساتذہ کا تقرر کیا گیا ہے ، ان میں سے صرف 36659 اسکول ہی فعال ہیں۔

یہ اعداد و شمار تعلیم کی افسوسناک حالت کو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اس سے نسل نوکے مستقبل پر اثر پڑتا ہے۔ بہت ساری اسکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں یا بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ، بغیر چھتوں کے اور بغیر دروازے اور باؤنڈری وال کے برسوں سےاسکولوں کی حالت زار قابل افسوس ہے۔یہاں تک کہ اساتذہ یا طلبہ کے بغیر بھی اسکول ہیں۔

یہاں پینے کے پانی کی سہولت کے بغیر 26260 اسکول ہیں ، 19469 اسکولزواش رومز کے بغیر ہیں اور 31000 اسکولوں میں بجلی تک نہیں ہے۔ اسکولوں کے ایک بڑے حصے کے پاس کھیل کا میدان ، لیبارٹری یا لائبریری نہیں ہے جو طلباء کی ذہنی و جسمانی تندرستی کے لئے ضروری ہے۔

اس رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ضلع ٹھٹھہ کے ایک اسکول میں 185 طلبا کے لئے صرف دو اساتذہ تھے اور کئی دہائیاں قبل قائم ہونے کے باوجود اس اسکول میں چھت نہیں تھی۔ حکومت سندھ نے ٹھٹھہ میں ڈگری کالج قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے لیکن طلباء کو پڑھانے کے لئے کوئی لیکچرار نہیں ہے۔ تعلیم کے شعبے میں یہ صورتحال حکومتی عدم توجہی کو ظاہر کرتی ہے اورصوبے میں صرف 15000 اسکولوں کو تسلی بخش حالت میں سمجھا جاتا ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم نے دہشت گردی کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ملک میں کمزور نظام تعلیم کو قرار دیا ہے جبکہ بہت سے بچوں نے مشکل حالت کی وجہ سے اسکول چھوڑنے کا انتخاب کیا ہے۔

کورونا وائرس وبائی امراض نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے کیونکہ کئی مہینوں سے اسکول بند ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ حفاظتی احتیاطی تدابیر کے نفاذ کی وجہ سے 600000 سے زیادہ بچے اسکول چھوڑ چکے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ تعلیم سب سے زیادہ عدم توجہی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے قوم کی ترقی کا راستہ مسدود ہورہا ہے۔

Related Posts