پی ٹی آئی کے نعرے اور تلخ حقائق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 عوام ہوں یا سیاست سب کو خوشامدی لوگ پسند ہیں اور اسی خوشامدی کلچر کی وجہ سے پاکستان کو ترقی میں مشکلا ت کا سامنا ہے۔

دوسری جانب جس کو دیکھیں دوسرے پر تنقید کرتا ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا کسی کو پسند نہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جو لوگ دوسروں کو رائے دیتے ہیں کہ کفایت اور سادگی سے زندگی گزاریں اور فضول خرچی نہ کریں وہ لوگ خود سب سے زیادہ اسراف کرتے پائے جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان نے ایک پیغام دیا تھا کہ ملک کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام وزراء، وزرائے اعلیٰ اور گورنرز کسی بھی نجی تقریب میں سرکاری پروٹوکول کا استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے بڑے معاشی نقصانات ہوتے ہیں۔ بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ جب ہم نے یہ اعلان سنا تو بہت اچھا لگا اور پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ شائدپاکستان میں واقعی تبدیلی آرہی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔

جہاں وزیراعظم عمران خان کا جانا ضروری نہیں، وہاں انہیں خاص طور پر لایاجاتا ہے۔ جی ہاں ! میں گرین لائن بس منصوبے کی بات کررہا ہوں۔

اس منصوبے کاافتتاح پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنماء نعیم الحق کے ورثاء سے بھی کروایا جاسکتا تھا جس سے ایک خوبصورت پیغام بھی جاتا لیکن اس منصوبے کو سیاسی رخ دیکر عمران خان خود افتتاح کرنے کراچی پہنچتے ہیں تاکہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جاسکے۔

دیکھا جائے تو اس افتتاح کیلئے عمران خان کے جو اخراجات ہوائی جہاز سے سفر سے لے کر کراچی کے گرین منصوبے کے افتتاح تک ہوئے، ان کو اگر کسی غریب کی بہتری کیلئے استعمال کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔

ہمارے ملک میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ غریب کیلئے صرف حکومت کی طرف سے باتیں ہی ہوتی ہیں اور خاص طور پر پی ٹی آئی کی طرف سے سیاسی ٹوئٹس اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت اس حکومت کے ہوتے ہوئے بہتر ہوجائے، یہ بہت ہی مشکل نظر آتا ہے کیونکہ موجودہ حکومت صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سنتی ہے یا اپنے خوشامدی ٹولے کی بات سنی جاتی ہے جبکہ پاکستانی عوام روزانہ کی بنیاد پر روتے اور سسکتے ہوئے التجا کررہے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں کو کم کریں، پیٹرول کی قیمتوں  میں کمی لائیں، ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ سستے کئے جائیں،اشیاء خوردونوش کے دام عوام کی پہنچ میں لائے جائیں، لیکن غریبوں کی کوئی سننا پسند نہیں کرتا۔ یہ بڑی تلخ حقیقت ہے۔

پاکستان میں غربت اور مہنگائی کی وجہ سے عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے بھی تعلیم دلوانا ایک مشکل امر بن چکا ہے۔ انسان اپنی روٹی کھائے یا اپنے بچوں کو پڑھائے۔جب کسی انسان کے گھر میں چولہا نہیں جلے گا تو وہ کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور یہی سب کچھ پاکستانیوں کے ساتھ ہورہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو خوشامد کی اتنی عادت ہوچکی ہے کہ جس طرح سے ان کے وزراء عمران خان کے دربار میں کھڑے ہوکر جی حضوری کرتے ہیں اور اس ماحول میں عمران خان خود کو کسی بادشاہ سے کم نہیں سمجھتے اور عوام کو احساس پروگرام کے نام پر خیرات دے دے کر بھکاری بنادیا گیا ہے۔دوسری جانب وہ خود مختلف ممالک کی خوشامد کرکے پاکستان کیلئے بھاری سود پر پیسہ حاصل کرتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق سود اللہ سے جنگ کے متراد ف ہے۔

سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ کونسی ریاست مدینہ ہے جس میں معیشت سود کی بنیاد پر مستحکم کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں؟ عوام بھوکے ، پیاسے اور پریشان ہو کر التجا کررہے ہیں کہ ان کو کمانے کا موقع دیا جائے ، ان کیلئے روزگار پیدا کیا جائے لیکن یہ حکومت تجارت کرنے کے سارے مواقع بند کرتی نظر آرہی ہے۔

کسی بھی کاروبار کو چلانے کیلئے وسائل فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت آئی ایم ایف کی غلامی کرتے ہوئے پیسے لیتی ہے تاکہ ان کی حکومت کے اخراجات چلتے رہیں۔

اگر حکومت چاہتی کہ ریاست مدینہ کی طرح ملک کو چلائیں تو وہ سنت واحادیث کے مطابق پہلے خود ان پر عمل کرتی تاکہ عوام ان کی رہنمائی کرتے ، حکومت کسی نہ کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر یہ بیان دیتی ہے کہ مصلحتاً ہمیں وہ اقدام اٹھانے پڑ رہے ہیں جو ہم اٹھانا نہیں چاہتے۔ اگر آپ واقعی ایسے اقدام نہیں اٹھانا چاہتے تو کیوں اٹھاتے ہیں؟

جب ایران میں تبدیلی آئی تھی تو پوری دنیا نے ان پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ایران کے پاس کوئی بیرونی اثاثے نہیں تھے۔ان کے تیل کے اثاثوں پر بھی پابندیاں لگادی گئی تھیں مگر ان کے پختہ ارادے تھے کہ وہ اسلامی تبدیلی چاہتے تھے اور اپنے ملک کو اسلام کے مطابق چلانا چاہتے تھے جس کی وجہ سے تمام پابندیوں اور مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنے ملک اور عوام کو ایک اچھی اور معاشی زندگی دی اور آج دنیا بھر میں لوگ ان کے اوپر تحقیق میں لگ گئے ہیں کہ وہ معاشی پابندیوں اوربغیر آئی ایم ایف کی معاونت کے کس طرح سے عرصہ دراز سے اپنے ملک کا نظام چلاتے آرہے ہیں۔پاکستان کی پی ٹی آئی حکومت اگر واقعی عوام کے ساتھ مخلص ہے تو ایران سے سبق حاصل کیاجاسکتا ہے۔

Related Posts