منگل کے روز سابق وزیر اعظم کے سابق معاونِ خصوصی اور موجودہ پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کو نجی ٹی وی چینل پر پروگرام کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا جبکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب انہیں حراست میں لیا گیا ہو۔
رواں برس اپریل کے اوائل میں عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں جب وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا تو شہباز گِل جو وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی ابلاغ کے طور پر کام کر رہے تھے، بنی گالہ میں بطور چیف آف اسٹاف کام کرنے لگے۔ انہیں چیف آف اسٹاف 13 اپریل کو مقرر کیا گیا تھا۔
موجودہ حکومت شہباز گل کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کے سابق مشیرِ احتساب شہزاد اکبر کا نام بھی اسٹاپ لسٹ پر ڈال چکی تھی تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف آف اسٹاف تقرری سے کچھ ہی وقت قبل یہ فیصلہ معطل کردیا۔
پہلی بار پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کو 17 جولائی کے روز گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں رہائی 18جولائی کو ملی جس پر شہباز گل نے گرفتاری کی مذمت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا تھا۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کو پنجاب کے شہر مظفر گڑھ سے حراست میں لیا گیا۔ پنجاب حکومت کا گزشتہ ماہ اس گرفتاری کے متعلق کہنا تھا کہ شہباز گل کو نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر گرفتار کیا۔ ان کے ساتھ کے پی کے کے مسلح افراد تھے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ شہباز گِل کو سکیورٹی فراہم کرنے والی کمپنی کے خلاف کارروائی کریں گے۔ نجی کمپنی نے ایف سی ملازمین جیسی وردی بنائی ہوئی ہے۔ ہم نے اس کا لائسنس منسوخ کردیا۔
دوسری بار شہباز گل کی گرفتاری 9 اگست کو عمل میں لائی گئی تاہم اس سے قبل اس جواں سال پی ٹی آئی رہنما کا ایکسیڈنٹ بھی ہوا تھا۔ شہباز گل کا کہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا، پولیس کی لاٹھی سے انگلی ٹوٹ گئی تھی مگر میں بچ گیا ہوں۔
شہباز گِل نے اپنے ایکسیڈنٹ کے متعلق 6مئی کے روز کہا کہ میں بچ تو گیا ہوں لیکن مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ حکومت کے خاتمے پر جس پہلے بندے پر حملہ ہوا، وہ میں ہوں۔ پی ٹی آئی حکومت گئی نہیں تھی کہ میرے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا۔
پیر یعنی 8 اگست کی شام کو نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شہباز گِل نے قابلِ اعتراض الزامات عائد کیے اور پاک فوج کے خلاف بیان بازی کی جس پر پیمرا نے نجی ٹی وی کی نشریات معطل کردیں۔
ٹی وی انتظامیہ کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا۔ سرکار کی مدعیت میں تھانہ کوہسار میں درج مقدمے کے متن میں کہا گیا کہ شہباز گل نے ملک میں انتشار پھیلانے، فوج تقسیم کرنے اورفوجی جوانوں کو افسران کا حکم نہ ماننے کی ترغیب دی۔
مقدمے کے متن میں مزید کہا گیا کہ شہباز گل نے عوام کو فوج کے خلاف نفرت پر اُکسایا اور ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی۔ عدالت نے شہباز گِل کو 2 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی قیادت کو شہباز گِل کے بیانیے سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے شہباز گل کو ڈانٹا کہ یہ بڑی بری بات ہے۔ عمران خان کا بیان تھا کہ فوج کے خلاف ہونے والا پاکستانی نہیں ہوسکتا۔
چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ تحریکِ انصاف کی قیادت کو شہباز گِل کے بیان سے الگ ہونا پڑے گا۔ اس بیان سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوا کیونکہ ادارے ہمارے ہیں۔ افواج کے خلاف بیان دینا کوئی عقل کی بات ہے؟
دلچسپ طور پر جس ٹی وی چینل نے شہباز گل کی ویڈیو چلانے پر پیمرا کی پابندی کا سامنا کیا ہے، یہ وہی چینل ہے جس میں ایک روز سابق وزیرِ آبی امور فیصل واؤڈا فوجی بوٹ لے کر آگئے تھے۔ پاک فوج پر بے جا تنقید کوئی ہضم ہونے والی بات نہیں ہے۔ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ہوگا۔