وزیر اعظم عمران کا انٹرویو: کیا حقانی افغانستان میں پشتون قبیلہ ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیر اعظم عمران کا انٹرویو: کیا حقانی افغانستان میں پشتون قبیلہ ہے؟
وزیر اعظم عمران کا انٹرویو: کیا حقانی افغانستان میں پشتون قبیلہ ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: وزیر اعظم عمران خان کے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے ساتھ حالیہ انٹرویو کے بعد حقانی نیٹ ورک کی اصلیت کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے۔

وزیر اعظم نے سی این این دیئے گئے ایک بڑے انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکیوں نے کبھی نہیں سمجھا کہ حقانی نیٹ ورک کیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک ایک قبیلہ ہے۔ یہ افغانستان میں رہنے والا ایک پشتون قبیلہ ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چالیس سال پہلے، جب افغان جہاد ہوا، اُس وقت ہمارے پاس پاکستان میں پچاس لاکھ افغان مہاجرین تھے، ان میں سے کچھ حقانی بھی تھے۔انہوں نے مزید کہا، ”حقانی، مجاہدین سوویتوں سے لڑ رہے تھے۔ وہ پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں پیدا ہوئے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل:

وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر صحافیوں سمیت متعدد لوگوں کی جانب سے جواب دیاگیا، جنہوں نے دلائل دیئے کہ حقانی کوئی قبیلہ نہیں ہے۔

 

 

حقانی دارالعلوم کی تاریخ:

جمعیت علمائے اسلام (س) کے مرکزی رہنما اور سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا حامد الحق نے وی او اے کو بتایا کہ مولانا عبدالحق نے دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوکر 23 ستمبر 1947کو اپنے آبائی علاقے میں ایک مدرسہ قائم کیا۔

مولانا حامد الحق نے کہا کہ حقانی دارالعلوم نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ممالک میں بھی منفرد مقام رکھتا ہے۔

ان کے مطابق دسمبر 1979 کے آخر میں، جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، حقانی دارالعلوم افغان مہاجرین کے لیے ایک اہم منزل بن گیا۔

جے یو آئی کے مرکزی ترجمان مولانا یوسف شاہ نے تصدیق کی کہ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی نے حقانی دارالعلوم میں تعلیم حاصل کی ہے۔

ان کے مطابق جلال الدین حقانی کے خاندان کے بیشتر افراد نے اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اسی طرح جلال الدین حقانی کے ساتھ، زیادہ تر جو سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں سب سے آگے تھے وہ کسی نہ کسی طریقے سے مدرسہ سے وابستہ رہے۔

حقانی گروپ کیا ہے؟

حقانی نیٹ ورک ان افراد کی تنظیم ہے جو سوویت یونین کے حملے کے بعد سے افغانستان میں جنگیں لڑ رہے ہیں۔ یہ گروپ جلال الدین حقانی نے بنایا تھا اور 1995 میں طالبان کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔

مغربی ذرائع ابلاغ کا خیال ہے کہ حقانی نیٹ ورک سوویت، امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف اتحادی یا آئی ایس آئی کے آلے کے طور پر لڑ رہا تھا، لیکن یہ دعوے کبھی بھی ثابت نہیں ہوئے اور نہ ہی شواہد سے ان کی حمایت کی گئی۔

حقانی کو افغانستان میں ”خطرناک ترین” عسکریت پسند گروپ قرار دیا گیا ہے اور اس کے القاعدہ سے تعلقات تھے۔ کابل میں 2018 بم دھماکے، جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوئے، القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک پر الزام لگایا گیا۔

یہ گروپ مبینہ طور پر پاکستان-افغانستان سرحد کے علاقوں میں مقیم ہے۔یہ اسلحہ حاصل کرنا، خودکش حملہ آوروں کو تربیت دینا، فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنا جیسے کام کرتے ہیں۔

رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک 3,000 سے 10,000 ممبروں پر مشتمل ہے۔ اس کی مالی اعانت متعدد ذرائع سے ہوتی ہے، بشمول امیر اور بااثرخلیجی ریاستوں کے، یہ اسمگلنگ کے ذریعے بھی پیسہ بناتے ہیں۔

Related Posts