پاکستان میں توانائی کا بحران

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں توانائی کا بحران کوئی نئی بات نہیں رہی اور کم و بیش ہر پاکستانی کو بجلی کی بندش جیسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں اتحادی حکومت نے حالات پر قابو پانے کیلئے ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔

صوبہ سندھ اور پنجاب میں مارکیٹس، شاپنگ مالز، شادی ہالز اور ریسٹورنٹس کے اوقاتِ کار ایک ماہ کیلئے محدود کردئیے گئے ہیں۔ رات کو 9 بجتے ہی دکانیں بند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

ایک عام خیال یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار اور کھپت کے مابین فرق کم کیا جاسکتا ہے اور اسی خیال پر عمل کیلئے حکومت نے اوقاتِ کار کم کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ موسم انتہائی گرم ہونے کے باعث پاور پلانٹس کی پوری صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیل کی کمی کے باعث طلب اور رسد کا فرق بہت زیادہ ہے جسے دیگر الفاظ میں بجلی کا شارٹ فال کہا جاسکتا ہے۔ 

پابندی کے تحت پنجاب اور سندھ میں بازار، دکانیں اور شاپنگ مالز رات 9 بجے تک جبکہ شادی ہالز، ریستوران اور کیفے مزید ایک دو گھنٹے بعد بند کرنا ہوں گے تاہم فارمیسی، ہسپتال، پیٹرول پمپ اور بیکریوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

تجارتی اوقات کے متعلق عوام الناس کی جانب سے ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ انجمنِ تاجران پاکستان نے پابندیوں کو یکسر مسترد کردیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ دن بھر کی لوڈ شیڈنگ پہلے ہی کاروبار کیلئے مہلک ثابت ہورہی ہے۔

شدید گرمی کے باعث دن کے اوقات میں شہری پہلے ہی دکانوں کا رخ کرنے کی بجائے گھر پر آرام کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ نئے کاروباری اوقات کی پابندی کی جائے اور بجلی کے شارٹ فال پر قابو پایا جائے تاکہ یہ عارضی علاج بجلی کی بندش کی مستقل مصیبت سے نجات دلانے کا باعث بن سکے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان پہلے ہی حکومت پر بیرونی سازش اور دھمکی آمیز خط جیسے الزامات عائد کرکے موجودہ اتحادیوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں اور اگر تاجر برادری بھی ان کے ساتھ مل گئی تو بیساکھیوں کے سہارے ٹکی حکومت کیلئے دو محاذوں پر جنگ لڑنا اور بھی مشکل ہوجائے گا۔ 

اس موقعے پر تاجر برادری کو قومی معیشت کو مکمل طور پر تباہی سے بچانے کیلئے مشکل فیصلے کرکے عوامی تنقید کا نشانہ بننے والی حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔ اگر پھر بھی تاجر برادری کو یہ پابندیاں مشکل محسوس ہوں تو مزاحمت کی بجائے مذاکرات کا سہارا لیا جاسکتا ہے تاکہ اس صورتحال کا کوئی قابلِ قبول حل تلاش کیا جاسکے۔

Related Posts