افغانستان میں آپریشن کیلئے فضائی حدود کااستعمال، پاک امریکا ممکنہ معاہدہ کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغانستان میں آپریشن کیلئے فضائی حدود کااستعمال، پاک امریکا ممکنہ معاہدہ کیا ہے؟
افغانستان میں آپریشن کیلئے فضائی حدود کااستعمال، پاک امریکا ممکنہ معاہدہ کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں فوجی آپریشن کیلئے فضائی حدود کے استعمال پر امریکا اور پاکستان معاہدے کے قریب ہیں، اور ظاہر ہے کہ اگر معاہدہ ہوگیا تو پاکستان کا ایبسولوٹلی ناٹ پر مبنی بیانیہ خطرے میں پڑ جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان کی جانب سے امریکا کو افغانستان میں آپریشنز یا ڈرون حملوں کیلئے فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینے کی متعدد مرتبہ ممانعت کی گئی ہے۔ وزارتِ خارجہ ہو یا وزارتِ عظمیٰ، ہر جانب سے امریکی بیانیے کو جھوٹا اور بے بنیاد ہی قرار دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان اور امریکا کسی معاہدے پر پہنچتے ہیں تو وہ کیا ہوسکتا ہے؟ کیا افغانستان پر امریکا کو فضائی آپریشن کیلئے حدود کے استعمال کی اجازت دینا 20 سالہ جنگ کے دوبارہ آغاز کا اشارہ تو نہیں؟ اور اگر ہے تو اس سے سب سے زیادہ کون سا ملک متاثر ہوگا؟ آئیے غور کرتے ہیں۔

سی این این کا دعویٰ

سرکاری نشریاتی ادارے سی این این کا دعویٰ ہے کہ جو بائیڈن حکومت امریکی اراکینِ کانگریس کو پاکستان سے فضائی حدود کے استعمال پر ہونے والے سمجھوتے سے گزشتہ روز آگاہ کرچکی ہے۔

نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان فضائی حدود کے استعمال کے بدلے میں امریکا سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے امداد حاصل کرنا چاہتا ہے جس پر دونوں ممالک میں معاہدہ ہوگا۔

دوسری جانب سی این این کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان امریکا سے بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں بھی مدد کا خواہاں ہے۔ دونوں ممالک کے مابین مذاکرات جاری ہیں اور سمجھوتہ تاحال حتمی نہیں۔ 

پاکستان کا مؤقف

روزِ اول سے ہی پاکستان کا امریکا کو فوجی اڈے یا فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینے سے متعلق یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔وزیر اعظم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ 

رواں برس جون کے دوران وزیر اعظم نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی۔ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان اپنی زمین افغانوں کے خلاف استعمال ہونے دے۔ سی آئی اے کو اڈے نہیں دیں گے۔

واشنگٹن پوسٹ میں تحریر کیے گئے مضمون میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم فوجی اڈے دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایسا کیا تو دہشت گرد حملے کریں گے۔ افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر دہشت گردی ہوئی۔ 150 ارب ڈالر سے زائد نقصان ہوا اور امریکا نے 20ارب دئیے۔ 

ڈو مور اور نو مور کا بیانیہ 

جولائی کے دوران آزاد کشمیر میں جلسے سے خطاب کے دوران وفاقی وزیرِ مواصلات مراد سعید نے کہا کہ وہ زمانہ گیا جب ایک فون کال پر پاکستان اپنے اڈے دے دیا کرتا تھا۔ آج عمران خان کی حکومت میں غیرت کی بات کی جاتی ہے۔ حکومت امریکا سے ڈو مور کی جگہ نور مور کی بات کرتی ہے۔ 

نو مور پر افغانستان سے ردِ عمل

افغانستان کے سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار نے گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان کے مؤقف کو جرات مندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے افغان جنگ کا حصہ نہ بننے کے اعلان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ بھارت بھی اس سے سبق سیکھے۔ 

حدود کی خلاف ورزی پر طالبان کی وارننگ

ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکا کو گزشتہ ماہ فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے ایک بار پھر عالمی قوانین اور دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ امریکی ڈرون ہماری فضائی حدود میں نظر آئے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکا فوری طور پر فضائی حدود کی خلاف ورزی سے باز آجائے۔ امریکا سمیت دیگر ممالک کو کہتے ہیں کہ قانون کی پابندی کریں اور منفی نتائج سے بچنے کیلئے ہماری خودمختاری کی عزت کریں۔ 

دہشت گردی کے خلاف جنگ 

حیرت انگیز طور پر امریکی میڈیا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی مدد کی ضرورت پڑ گئی ہے جبکہ پاکستان ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ اگر ہم نے امریکا کو فضائی حدود استعمال کرنے دیں تو افغانستان اسے اپنے خلاف جنگ سمجھے گا۔

ہمسایہ ملک افغانستان سے پہلے ہی سرحد پار فائرنگ کے واقعات اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کیلئے ٹی ٹی پی کا نام لیا جاتا ہے جو طالبان کی ہی ایک شاخ قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ طالبان نے ان کے لوگوں کو پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ایسے میں فضائی حدود دینے سے متعلق پاک امریکا ممکنہ معاہدے کی شرائط کچھ بھی ہوں، اگر پاکستان نے امریکا کو آپریشن کیلئے حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تو پاکستان میں دہشت گردی میں ممکنہ اضافے کو شاید نہ روکا جاسکے جو طالبان کی انتقامی کارروائی کہی جاسکتی ہے۔

Related Posts