تھر میں 3 ہزار سے زائد بچوں کی اموات ، حکومت کب ہوش میں آئیگی ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

More than 3,000 children die in Thar: when will the govt come out from slumber?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

صوبہ سندھ کے ضلع تھر میں رواں برس سیکڑوں بچے غذا کی کمی اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی سمیت دیگر اہم مسائل کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔

سندھ حکومت تھر میں مسائل کے حل کیلئے اقدامات اٹھانے کا دعویٰ تو کرتی ہے تاہم یہ دعویٰ کس حد تک سچا ہے، اِس حوالے سے ایک اہم رپورٹ سامنے آئی ہے۔

آئیے ضلع تھر کے علاقے میں مختلف اہم مسائل کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سندھ حکومت یہاں کے غریب عوام کیلئےکیا اقدامات اٹھا رہی ہے اور اگر ابھی تک سندھ حکومت سو رہی ہے تو کب تک ہوش میں آئے گی ، تاکہ عوام کے مسائل کا تدارک ممکن ہوسکے۔

ضلع تھرپارکر
ضلع تھرپارکر سندھ کا ایک ضلع ہے،تھرپارکرچار تحصیلوں ڈیپلو،چھاچھرو،مٹھی اورننگرپارکرپر مشتمل ہے اور ان تحصیلوں کو تعلقہ بھی کہا جاتا ہے، اس کے شمال میں میرپور خاص اور عمرکوٹ کے اضلاع، مشرق میں بھارت کے بارمیر اور جیسلمیر کے علاقے، مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا متنازعہ علاقہ ہے۔

اس ضلع کا بیشتر علاقہ صحرائے تھر پر مشتمل ہے جبکہ جنوب میں رن کچھ کے دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں ہیں۔ یہاں کے اہم شہر مٹھی، اسلام کوٹ اور چھاچھرو ہیں جبکہ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے اور بذریعہ کھوکھراپار بھارت کے علاقے موناباؤ جاتی ہے۔

تھر کی معدنیات
بنیادی وسائل سے محروم صحرائے تھر معدنیات سے مالامال علاقہ ہے، محکمہ لائیو سٹاک سندھ کے مطابق صوبے میں مویشیوں کی مجموعی 60 فیصد سے زائد تعداد صرف صحرائے تھر میں ہے۔ یہاں ایک سو سے زائد نمک کی کانیں ،ایک خاص قسم کی مٹی ،رنگ برنگے گرینائٹ کے پتھر اور175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر بھی موجود ہیں۔

تھرپارکر کی آبادی اور پانی کا مسئلہ
آخری قومی مردم شماری 1998ء کے مطابق تھرپارکرکی آبادی 955812 ہے جس میں سے صرف 4اعشاریہ 54 فیصد ہی شہروں میں مقیم ہے جبکہ سندھ حکومت کے مطابق تھر کی آبادی 18 لاکھ ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ مٹھی اور اسلام کوٹ سے متصل علاقوں کے سات سے آٹھ لاکھ لوگوں کو دریائے سندھ کا میٹھا پانی پائپ لائن کے ذریعے دیا جارہا ہے تاہم آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ 60 فیصد کے قریب آبادی پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔

تھر کی بیشتر آبادی کا انحصار بارش پر ہوتا ہے اور جب بارشیں نہیں ہوتی تو تھر میں شدید خشک سالی ہو جاتی ہے جس سے انسانوں سمیت جانوروں کی بھی اموات ہوتی ہیں۔

بچوں کی اموات پر رپورٹ
سندھ کے ضلع تھر پارکر میں غذائی قلت اور وبائی امراض سے آج مزید 2 بچے جاں بحق ہو گئے، سول اسپتال مٹھی میں مزید دو بچے چل بسے جبکہ 45 بچے زیر علاج ہیں۔تھر میں انتہائی شدید سردی کی وجہ سے بچوں کی اموات بڑھ گئی ہیں۔

رواں ماہ 52 بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔تھر میں رواں برس کے دوران 800 سے زائد کمسن بچے انتقال کر گئے جس کے نتیجے میں 5 برس میں اموات کی مجموعی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔5 برس کے عرصے میں ہونیوالی 3 ہزار اموات میں زچگی کے دوران یا پیدائش سے قبل ہی انتقال کر نیوالے بچے بھی شامل ہیں ۔

عوام کیلئے ضروری اقدامات
سندھ حکومت کو چاہئے کہ ضلع تھرکو بھی سندھ کا حصہ سمجھتے ہوئے یہاں کے عوام کیلئے اہم اقدامات اٹھائے جائیں، خاص طورپر جب معدنیات اور کوئلہ یہاں سے حاصل کیاجارہا ہے تو تھر کے عوام کا بھی حق بنتا ہے کہ ان کے بچے غذائی کمی سے مرنے کی بجائے اچھی خوراک استعمال کریں۔

صحت کی بہتر سہولیات تک ان کی رسائی ممکن بنائی جائے اور انہیں بھی قومی دھارے میں لا کر ملک کا نام روشن کرنے کیلئے بہتر مستقبل کی نوید ثابت کیا جائے۔

بچے چاہے تھر کے ہوں یا سندھ سمیت ملک بھر کے کسی بھی علاقے کے، انہیں بلا تخصیص رنگ و نسل و مذہب ملک کا مستقبل سمجھنا چاہئے۔ تھر کے بچے دراصل پاکستان کے بچے ہیں جن کی بڑھتی ہوئی اموات پاکستان بھر کیلئے لمحۂ فکریہ ہیں۔

یہ ہمارا وہ اثاثہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی عدم توجہی اور خود تھر میں موجود وڈیرہ شاہی اور دیگر ظالمانہ عوامل کے باعث بھی مسلسل تباہ ہورہا ہے۔

غذائی قلت اور پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ تھر کے دیگر اہم مسائل کو بھی حل کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے جن میں غذائی قلت اور پانی کے بعد تعلیم کا مسئلہ سب سے اہم ہے تاکہ یہ بچے پڑھ لکھ کر ملک کا عظیم سرمایہ ثابت ہوسکیں۔

Related Posts