قائداعظم کا یومِ پیدائش، بانئ پاکستان کی زندگی سے کیا سبق ملتا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قائداعظم کا یومِ پیدائش، بانئ پاکستان کی زندگی سے کیا سبق ملتا ہے؟
قائداعظم کا یومِ پیدائش، بانئ پاکستان کی زندگی سے کیا سبق ملتا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج یعنی 25دسمبر کے روز ہر سال قائدِ اعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش منایا جاتا ہے۔ تعلیم کی ہر سطح پر مطالعہ پاکستان کو لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہے جس میں قائدِ اعظم کے متعلق مضمون ضرور شامل ہوتا ہے۔ اس لیے ہم سب جانتے ہیں کہ قائدِ اعظم کون تھے؟ انہوں نے تحریکِ آزادئ پاکستان کیلئے زندگی قربان کیوں کی؟

سوال ہے کہ بانئ پاکستان کی زندگی سے ہیں کیا سبق ملتا ہے؟ کیونکہ پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل کے والدین اور بزرگ انہیں کہتے آئے ہیں کہ اگر ہم نے قائدِ اعظم کی زندگی سے کچھ سیکھا ہوتا تو آج پاکستان کسی اور مقام پر ہوتا۔ آئیے بابائے قوم کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قائدِ اعظم کی زندگی اور سیاست

آج سے 145 سال قبل 1875 کو 25 دسمبر کے روز کراچی میں آنکھ کھولنے والے محمد علی جناح اگلی ہی صدی میں قائدِاعظم کہلانے لگے۔ ان کی داستانِ حیات دو قومی نظرئیے سے شروع ہو کر پاکستان کی آزادی پر ختم ہوجاتی ہے۔

وکالت کے دوران اصول پسندی کو شعار بنانے والے قائدِ اعظم نے سیاست کے ابتدائی دور میں ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کی۔ 1916 میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین میثاقِ لکھنؤ کیلئے بھی قائدِ اعظم کا کردار اہم رہا۔ 1928 میں قائدِ اعظم کے 14نکات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

دو قومی نظریہ اور قراردادِ پاکستان

بہت جلد قائدِ اعظم کو احساس ہوا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جو ایک نہیں ہوسکتیں۔ 1920 میں قائدِ اعظم نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا۔ 1940 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری سے ہندو قیادت کو تشویش لاحق ہوگئی۔

مسلمانوں کو بھی الگ ملک حاصل کرنے کے خواب نے راتوں کو چین سے سونے کی بجائے اپنی توجہ جدوجہدِ آزادی پر مرکوز کرنے پر مجبور کیا۔ متحدہ بھارت کیلئے کانگریسی رہنماؤں نے بھرپور کوشش کی تاہم قائدِاعظم کے سامنے کسی کی ایک نہ چلی۔

قیامِ پاکستان اور رحلت

دنیا کے نقشے پر پاکستان سب سے بڑے مسلم ملک کی حیثیت سے ابھرا۔ قائدِ اعظم ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے لاکھوں افراد کی دیکھ بھال کا بیڑہ اٹھا لیا، تاہم آپ تادیر قوم کے سر پر سایہ فگن نہ رہ سکے۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح کا انتقال 11ستمبر 1948 کو ہوا۔ آپ کی وفات سے قوم کو جو دھچکا پہنچا تھا، اس سے آج تک نہ سنبھل سکی، تاہم آج بھی آپ کی زندگی کے بے شمار واقعات پاکستانی قوم کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

قائدِ اعظم کی زندگی سے حاصل اسباق

آج قوم کو بانئ پاکستان کے افکار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جس میں سچ بولنا، اصول پسندی، بے باکی، قائدانہ صلاحیتیں، ایمانداری اور سیاسی سوجھ بوجھ شامل ہیں۔  ایک روز برطانوی سفیر نے کہا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی ائیر پورٹ پہنچ رہا ہے۔ آپ ان کو لینے ائیرپورٹ چلے جائیں۔ قائدِ اعظم نے فرمایا کہ ایک شرط ہے۔ کل اگر میرا بھائی برطانیہ جائے تو آپ کا بادشاہ جارج اسے لینے ائیرپورٹ پہنچ جائے۔

آپ سفارش، اقربا پروری اور بے اصولی کے سخت خلاف تھے اور یہ بات آپ کو قطعی پسند نہیں تھی کہ کوئی قائد اعظم کے نام کا استعمال کرے۔ ایک بار ملازم نے آپ کے بھائی کا وزیٹنگ کارڈ دیا جس پر برادر آف محمد علی جناح تحریر تھا جو آپ نے پھاڑ ڈالا۔

ریل ٹکٹ ملازم کے پاس رہ جانے پر ٹکٹ ایگزامنر نے قائدِ اعظم سے 2 روپے رشوت طلب کی۔ یہ سن کر بانئ پاکستان کو غصہ آگیا۔ فرمایا کہ تم نے مجھ سے رشوت طلب کرکے قانون کی خلاف ورزی کی۔ میری توہین بھی کی ہے۔ آپ نے ایگزامنر کو سزا بھی دلائی۔

زندگی کا سب سے بڑا سبق

اگر کوئی شخص یہ جاننا چاہے کہ قائدِ اعظم کی زندگی کے 3 بڑے اصول کیا تھے تو وہ اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط ہیں جن کی آج پاکستانی قوم کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

Related Posts