کیا سپریم کورٹ کی پہلی ممکنہ خاتون جج جسٹس عائشہ ملک خواتین کو تحفظ دے سکیں گی؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا سپریم کورٹ کی پہلی ممکنہ خاتون جج جسٹس عائشہ ملک خواتین کو تحفظ دے سکیں گی؟
کیا سپریم کورٹ کی پہلی ممکنہ خاتون جج جسٹس عائشہ ملک خواتین کو تحفظ دے سکیں گی؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں تعلیم کی حالتِ زار ہم سب کے سامنے ہے، خاص طور پر خواتین کی تعلیم پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے، اس لیے گزشتہ 74 سال کی تاریخ میں سپریم کورٹ میں کسی ایک بھی خاتون جج کی تعیناتی نہ ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہی جاسکتی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے آئندہ ماہ 9 ستمبر کو سپریم کورٹ کی تاریخ کی پہلی خاتون جج کی تعیناتی کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا معاملہ زیرِ غور آئے گا۔

آج کل نور مقدم قتل کیس، قصور کی 6 سالہ زینب کا کیس اور کراچی کی 6 سالہ ماہا سمیت دیگر کیسز موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کی پہلی ممکنہ جج جسٹس عائشہ ملک خواتین کو تحفظ دے سکیں گی؟

سپریم کورٹ میں آسامی کی صورتحال

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس مشیر عالم رواں ماہ 17 اگست کے روز ریٹائر ہوجائیں گے جن کی جگہ جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر کرکے نئی تاریخ رقم کی جاسکتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی 74 سالہ عدالتی تاریخ میں کوئی بھی خاتون جج سپریم کورٹ میں تعینات نہ ہوسکی۔ جسٹس عائشہ ملک کی عمر 55 سال ہے جو اِس وقت لاہور میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک کا تعارف

لاہور ہائیکورٹ میں جج کے عہدے پر فائز جسٹس عائشہ ملک گزشتہ 9 برس سے تعینات ہیں، انہوں نے نیویارک، یپرس اور کراچی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جبکہ بی کام، ایل ایل بی بالترتیب کراچی اور لاہور سے اور ایل ایل ایم ہارورڈ لاء اسکول امریکا سے کیا ہے۔

وطن واپس آ کر جسٹس عائشہ ملک نے وکالت کو پیشے کے طور پر اپنایا اور پریکٹس کا آغاز کردیا اور پھر جج مقرر ہوئیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس عائشہ ملک سینیارٹی لسٹ میں چوتھی سینئر ترین جج ہیں جو 2 جون 2028ء تک کام کرسکتی ہیں۔

تقرری کے قواعد و ضوابط

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے کسی بھی جج کیلئے پاکستان کا شہری اور کم از کم 5 سال یا مختلف اوقات میں اتنی ہی مدت کیلئے عدالتِ عالیہ کے جج کے طور پر خدمات سرانجام دینا ضروری ہے۔

تجربے کے اعتبار سے جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے جج کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کم از کم 15 سال یا مختلف اوقات میں اتنی ہی مدت تک ہائی کورٹ کا ایڈووکیٹ رہا یا رہی ہو۔

سپریم کورٹ میں ایک چیف جسٹس، 17 ججز اور 2 ایڈہاک ججز تعینات ہوتے ہیں جن کی منظوری صدرِ مملکت اور وزیر اعظم دے سکتے ہیں۔ 

حقوقِ نسواں کا تحفظ اور جسٹس عائشہ ملک

مثل مشہور ہے کہ ایک خاتون کا درد کوئی دوسری خاتون ہی سمجھ سکتی ہے۔ بلاشبہ سپریم کورٹ کے ججز چاہے مرد ہی کیوں نہ ہوں، ان کا تجربہ بے حد وسیع اور عقل و دانش اس قدر گہری ہوتی ہے کہ اس پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کا نظامِ انصاف خواتین کے حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے جس کا ثبوت روزانہ کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی، قتل اور اغواء سمیت دیگر سنگین جرائم کے کیسز میں اضافہ ہے۔

 قانون کی کتابیں باریک بینی سے پڑھنے اور کیسز کو گہرائی و گیرائی سے سمجھنے کے باوجود اگر کوئی منصف مرد ہو تو خواتین کا دکھ درد نہیں سمجھ سکتا، اس لیے جسٹس عائشہ ملک کی ممکنہ تعیناتی کی خبر کے ساتھ ہی خواتین میں حقوقِ نسواں کے تحفظ کی امید جنم لے چکی ہے۔

Related Posts