خارجہ پالیسی اور مفادات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہم سب نے یہ پرانی کہاوت سن رکھی ہے کہ قوموں کے اتحادی نہیں ہوتے بلکہ صرف مفادات ہوتے ہیں۔دُنیا کے تمام ممالک کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پالیسی تیار کرنے کا پورا حق ہوتا ہے۔ پہلے اپنے دوستوں کو نوازنے یا دشمنوں کو سزا دینے کی خارجہ پالیسی نہیں بننی چاہئے بلکہ ترجیح ہمیشہ قومی مفادات کو حاصل ہونی چاہئے جس کیلئے متنازعہ ممالک کے ساتھ معاہدوں تک پہنچنا ہوتا ہے چاہے اتحادی ناراض ہی کیوں نہ ہوجائیں۔

اس کی ایک عمدہ مثال بھارت کے ساتھ پاکستان کے حالیہ تجارتی تعلقات ہیں۔ چینی اور روئی کی بھارت سے درآمد کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال کرنے پر کتنا شور برپا ہوا، تاہم حکومت نے واضح طور پر کشمیر کی صورتحال پر بھارت سے تجارتی تعلقات کو مسترد کردیا جو معاشی فیصلے کی بجائے واضح طور پر ایک سفارتی فیصلہ تھا۔ حکومت کو اب ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے دیگر آپشنز تلاش کرنا ہوں گے۔ بصورتِ دیگر چینی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں پاکستان کو سخت فیصلہ کرنا پڑا جس سے مختصر مدتی فوائد کی جگہ پالیسی امور پر اصولی مؤقف کا اعادہ کرنا مقصود تھا۔

ضروری بات یہ بھی ہے کہ ہمارے مفادات کسی اور کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کرتے ہوں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عالمی طاقتوں نے کشمیر میں بھارتی مظالم پر صرف اس لیے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ ان کے اپنے مفادات تھے اور وہ کسی بڑی مارکیٹ یا معاشی ملک سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح عرب اقوام نے بھارت کی مذمت کیلئے کشمیر سے متعلق ایک سربراہی اجلاس تک بلانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہ اقوام فلسطینیوں کے حقوق کی بھی نفی کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہیں۔

خارجہ پالیسی سے متعلق ایک اور صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب امریکی صدر جو بائیدن نے گزشتہ ماہ ماحولیاتی سمٹ میں پاکستان کو شرکت کی دعوت نہیں دی۔ امریکا نے اپنے روایتی حریف روس اور چین سمیت 40 سے زائد عالمی رہنماؤں کو تو کانفرنس میں مدعو کیا لیکن پاکستان کو باآسانی اس فہرست سے الگ رکھا گیا جبکہ بھارت کو دعوت دینے کے باعث خطے میں امریکی مفادات پر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ برطانیہ نے بھی پاکستان کو سرخ فہرست میں شامل کرتے ہوئے سفری پابندیاں عائد کردیں، جبکہ بھارت میں کورونا کے کیسز پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔

اس لیے یہ خیال گمراہ کن ثابت ہوا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات دوستی کی بنیاد پر استوار کیے جاتے ہیں۔ ریاستوں کے اپنے اتحادیوں سے نتیجہ خیز اور تعاون پر مبنی تعلقات تو استوار ہوسکتے ہیں لیکن دو ممالک کبھی حقیقی دوست نہیں بن سکتے جو خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا ایک اہم سبق ہے چاہے ہم اپنے تنگ دلانہ مقاصد کے حصول کیلئے اصولوں کو بھی فراموش کردیں۔ یہ تمام تر معاملہ فراموش کیا جاسکتا ہے اگر ریاستیں عوام کے بھلے کا سوچیں اور صرف شہرت یا نام و نمود کے حصول کیلئے فیصلے کرنا ترک کردیں۔