محکمہ جامعات اینڈ بورڈزماہرین تعلیم کی جگہ من پسند چیئرمین بورڈ تعینات کرنے کیلئے تیار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وائس چانسلرکا تقرر کرنے والی سرچ کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
وائس چانسلرکا تقرر کرنے والی سرچ کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: محکمہ جامعات اینڈ بورڈز سندھ نے صوبے کے 5 تعلیمی بورڈزمیں چیئرمین کی تقرّریوں کیلئے گزشتہ روزمبہم، خلافِ روایت اور خلاف ضابطہ اشتہار جاری کیا ہے۔

سندھ بھر کے 8 تعلیمی بورڈز میں سے 5 تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کی خالی اسامیوں کیلئے یہ اشتہار جاری کیا گیا ہے،جن میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سکھر، بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن شہید بینظیرآباد، بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد، بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میرپور خاص اور سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی شامل ہیں۔

قبل ازیں 3 دیگر بورڈز جن میں بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی، بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی میں چئیرمینوں کی تقرّریاں کی جا چکی ہیں جبکہ لاڑکانہ بورڈ کے چئیرمین کی تقرّری کیلئے سندھ ہائیکورٹ کا حکم بھی جاری ہو چکا ہے۔

گزشتہ روز شائع ہونے والے مبہم اشتہار کے مطابق چئیرمین بورڈ کی اسامی کیلئے امیدوار کسی منظور شدہ یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری کاحامل ہو،اس میں ڈویژن کا ذکر نہیں کیا گیا، جس میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے تھرڈ ڈویژن ڈگری رکھنے والے امیدوار پر کو بھی لگا یا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب اسامی میں گریڈ 17 کی حیثیت سے 17 سال یا گریڈ 18 کی حیثیت سے 8 سال کا تجربہ بھی ضروری ہے۔اس میں تعلیمی،تدریسی یا انتظامی تجربہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی محکمے میں گریڈ 17 کے بعد مجموعی طور پر 17 اور گریڈ 18 میں 8 سال کا تجربہ رکھنے والا کوئی بھی شخص اس اسامی کیلئے موضوع قرار پائیگا۔

اس اشتہار کا حیرت انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں پرائیوٹ سیکٹر کے افراد کیلئے بھی گنجائش رکھی گئی ہے، جس کے مطابق پرائیوٹ سیکٹر میں محض 8 سال سینئر مینجمنٹ پوسٹ پر کام کرنے کے تجربے کا حامل شخص بھی تعلیمی بورڈ کے چئیرمین کے عہدے کا اہل ہوگا۔ یعنی سرچ کمیٹی اب محض 8 سالہ تجربہ رکھنے والے کسی جفت ساز کمپنی یا سگریٹ بنانے والی کمپنی کے ایگزیکٹیو کو بھی تعلیمی بورڈ کا چئیر مین مقرّر کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

ماہر تعلیم زاہد احمد کا کہنا ہے کہ تعلیمی بورڈامتحانات منعقد کروانے والی اتھارٹی ہونے کی وجہ سے تعلیمی نظام میں انتہائی اہم ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مستقبل کے معماروں، ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسداں، بیوروکریٹ، بینکار، ماہرین ِ معاشیات، سیاستداں، وکیل، ججز، فوجی افسران، الغرض ریاست کی مشینری کو چلانے والا ہر کل پرزہ، تعلیمی بورڈ سے ہی اپنی اہلیت وصلاحیت کی سند لے کر ہی اپنے متعلقہ شعبے سے وابستگی اختیار کرتا ہے، جو تعلیمی بورڈکی اہمیت کا بیّن ثبوت ہے۔

تعلیمی بورڈ کا چئیرمین، بورڈ کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے،اس لئے تعلیمی بورڈ کی اہمیت کی طرح چئیرمین تعلیمی بورڈ کی اہمیت بھی مسلّمہ ہے۔ان کا مذید کہناتھا کہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ تعلیمی بورڈ کے چئیرمین کے عہدے پر ماہرین ِ تعلیم،سینئر اساتذہ کی تقرّریوں کی روایت رہی ہے۔تاہم اب ماہرین ِ تعلیم اور سینئر اساتذہ کو تعلیمی بورڈز کے چئیرمین کے منصب سے دور رکھنا باقاعدہ پالیسی بن چکی ہے۔

دستاویزات کے مطابق 2016 ء میں سندھ کے کچھ تعلیمی بورڈز کے چئیرمینوں کی تقرّریوں کے لئے امیدوار کیلئے تعلیمی قابلیت میں کم از کم سیکنڈ ڈویژن میں ماسٹر ڈگری، ترجیحاً پی ایچ ڈی اور تجربے کے ضمن میں، کم از کم 17 سال تعلیم وتدریس اور تعلیمی شعبے میں انتظامی امور کی انجام دہی کا 8 سال کا تجربہ مانگا گیا تھا۔

چیئرمین تعلیمی بورڈ کی اسامی کو حسب ِ روایت پروفیشنل ٹیچرکیلئے مختص رکھا گیا تھا جس میں عمر کی زیادہ سے زیادہ حد بھی 62 سال رکھی گئی تھی، جبکہ کم سے کم عمر کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ جس کے نتیجے میں تعلیمی بورڈز کے تمام چئیرمین پروفیشنل ٹیچر ہی تعینات ہوئے ہیں۔

ایم ایم نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق 2019ء میں تعلیمی بورڈز کے سربراہان کی تقرّریوں کیلئے تعلیمی قابلیت،تجربہ،عمر کی حد اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر امیدوار کوترجیح سمیت 17سال کے لازمی تدریسی تجربے تک کو یکسر ختم کر دیا گیا جبکہ مختلف شعبوں میں 10سالہ تجربہ لازمی قرار دیکر چیئرمین بننے کیلئے دیگر شعبوں سے متعلق افراد کو چئیرمین تعلیمی بورڈ مقرّر کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔

حیرت انگیز طور 2019 میں چئیرمین بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی اسامی پر محکمہ تعلیم ایجوکیشن کے افسرکومطلوبہ عمر کی حد، تعلیمی قابلیت اور تجربے پر پورا اترنے، ٹیکنیکل ایجوکیشن، ٹیکنیکل کالج میں تدریسی تجربے،بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ (کولمبو پلان کے تحت)کے باوجودانٹرویو تک لئے نہیں بلایا تاہم اس کے برعکس ٹیکنیکل ایجوکیشن کے بجائے حیوانیات کی ڈگری رکھنے والے،ٹیکنیکل بورڈکے سمیت کسی بھی متعلقہ مطلوبہ ضرورت پر پورا نہ اترنے والے ا میدوار کو چیئرمین تعینات کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے ماہر تعلیم وایگیزیکٹیو ڈائریکٹر مجلس علمی فاؤنڈیشن ڈاکٹر عامر طاسین کا کہنا ہے کہ چئیرمین تعلیمی بورڈ کے منصب کے لئے ماہرین ِ تعلیم اور سینئر اساتذہ کو نظرانداز کرکے کسی بھی سرکاری ادارے کیفرد یا کسی بھی پرائیوٹ ادارے کے ایم اے پاس شخص کو چئیرمین تعلیمی بورڈمقرّر کرنے کی نئی پالیسی پراساتذہ تنظیموں کی پراسرار خاموشی پر حیرت بھی ہے اور افسوس بھی ہے۔پی ایچ ڈی کرنے والے اساتذہ، کسی بھی بورڈ میں تعینات رہ کر بہترین تجربات سے اس کوآگے بڑھانے والے ماہرین کو چھوڑ کرکسی اور کی تعیناتی سے سیاسی فوائد ممکن ہیں مگر تعلیمی فوائد کسی بھی صورت نہیں ہو سکتے۔

واضح رہے کہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سکھرسے خورشید شاہ کے بھائی مجتبی شاہ، بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد سے محمد میمن اور بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میرپور خاص سے برکت علی حیدری ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔جب کہ بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن شہید بینظیرآباد میں پہلی بار مستقل چیئرمین تعینات کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:پروموشن پالیسی سے رہ جانے والے کراچی کے 7 ہزار طلبہ کا مستقل داؤ پر لگ گیا

Related Posts